فروزاں رپورٹ
اگر گلوبل وارمنگ 1.5°C سے اوپر گئی (جو کہ اب ممکنہ لگتا ہے)، تو یورپ میں ہر سال ایسے موسم کا سامنا معمول بن جائے گا۔
یورپ، جو ایک زمانے میں اعتدال موسم کی پہچان سمجھا جاتا تھا، آج حرارت کی ایسی شدت کا شکار ہو چکا ہے جو کسی کے تصور سے بھی باہر تھی۔ 2025 کیجون کا اختتام،جولائی کا مہینہ شرو ع ہو چکا ہے اور یورپ میں درجہ حرارت نہ صرف 45 ڈگری سے تجاوز کر چکا بلکہ بعض علاقوں میں 47 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب پہنچ گیا۔ سوال یہ نہیں کہ یورپ اتنی گرمی کیوں جھیل رہا ہے بلکہ سوال یہ ہے کیادنیا یورپ سمیت ایک نئے موسمی عہد میں داخل ہو چکی ہے؟
ایک انتباہ جو وقت پر سنا نہ گیا
یورپ میں ہیٹ ویوز کا باقاعدہ آغاز 2003 سے سمجھا جاتا ہے، جب صرف ایک موسمِ گرما میں 70 ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔ اس کے بعد 2010، 2015، 2019، 2022 اور اب 2025 میں گرمی کی شدت اور دورانیہ مسلسل بڑھتا چلا گیا۔کوپر نیکس کلائیمٹ چینج سروس کے مطابق، 2022 یورپ کا اب تک کا سب سے گرم سال تھا، مگرجون 2025 مغربی یورپ کی تاریخ کا سب سے گرم جون رہا ہے اور گرمی کی اس لہر نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔موسمیاتی ماہرین اور ماحولیاتی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ یہ صورتحال معمولی نہیں بلکہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی سنگین علامت ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں، خاص طور پر 2023 سے لے کر 2025 تک، یورپی براعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے ایسے آثار دیکھے ہیں جو پہلے کبھی اس شدت سے محسوس نہیں کیے گئے۔ جنگلات میں آگ، خشک سالی، اور اب جان لیوا گرمی کی لہریں نہ صرف انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں بلکہ یورپی معیشت، زراعت اور صحت کے نظام پر بھی غیر معمولی دباؤ ڈال رہی ہیں۔
گرمی کی لہر: ایک خاموش قاتل
ہیٹ ویو (ہیٹ ویو) کو ماہرین ‘خاموش قاتل’ کہتے ہیں، کیونکہ یہ آہستہ آہستہ اور بظاہر بغیر شور شرابے کے انسانی جسم کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ جون اور جولائی 2025 میں یورپ میں درجہ حرارت نے کئی دہائیوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ اسپین، اٹلی، فرانس، جرمنی، اور برطانیہ میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جا پہنچا۔ کئی مقامات پر مسلسل دس دنوں سے زائد تک درجہ حرارت خطرناک سطح پر رہا۔
جون 2025 کی مہلک ہیٹ ویو: اے ایف پی رپورٹ کا تجزیہ
جون،جولائی 2025 کی ہیٹ ویوز کے حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ جون کے آخر میں یورپ بھر میں جاری شدید ہیٹ ویو کے نتیجے میں تقریباً 2,300 اضافی اموات واقع ہوئیں۔ یہ رپورٹ ماحولیاتی ماڈلز، طبی ڈیٹا اور عمرانیاتی جائزوں کی مدد سے تیار کی گئی، اور اس کا مقصد ماحولیاتی دباؤ کے انسانی صحت پر براہِ راست اثرات کو اجاگر کرنا ہے۔
مہلک درجہ حرارت اور انسانی جانیں
رپورٹ کے مطابق 23 جون سے 2 جولائی 2025 کے دوران یورپ کے 13 بڑے شہروں میں درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسپین میں 46.6 ڈگری سینٹی گریڈ تک پارہ پہنچا، جب کہ پرتگال، فرانس، اٹلی اور برطانیہ میں بھی غیر معمولی گرمی کی لہر دیکھی گئی۔ تقریباً 1,500 اموات براہ راست ماحولیاتی تبدیلی سے منسلک ہیٹ ویو کے نتیجے میں ہوئیں، یعنی اگر کاربن کا اخراج موجودہ حد تک نہ ہوتا تو ان اموات سے بچا جا سکتا تھا۔
عمر رسیدہ آبادی سب سے زیادہ متاثر
ہیٹ ویوز کے مہلک اثرات خاص طور پر بزرگ افراد پر مرتب ہوئے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 80 فیصد سے زائد اموات ان افراد کی ہوئیں جن کی عمر 65 سال سے زیادہ تھی۔ گرمی کے باعث جسم کا قدرتی درجہ حرارت قابو سے باہر ہو جاتا ہے، جس سے دل، گردے اور نظام تنفس متاثر ہوتے ہیں، اور یہی اموات کی بنیادی وجوہات بنتی ہیں۔
تحقیقاتی طریقہ کار
یہ رپورٹ ورلڈ ویدر اٹریبیوشن، ٹراپیکل میڈیسن لندن اسکول آف ہایجین اور دیگر ماحولیاتی اداروں کے اشتراک سے تیار کی گئی۔ محققین نے موسمیاتی ماڈلز اور انسانی اموات کے اعداد و شمار کا موازنہ کر کے اندازہ لگایا کہ گرمی کی یہ لہر اگر کاربن اخراج کے بغیر کی دنیا میں آتی تو اموات کی تعداد کتنی مختلف ہوتی۔
موجودہ صورتحال (جون – جولائی 2025): گرمی کی نئی تاریخ رقم
تازہ ریکارڈز
28 جون 2025 کو اسپین کے شہر قرطبہ میں 46.8°C درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، جو اب تک کا سب سے زیادہ ہے۔فرانس کے جنوبی علاقوں میں ہیٹ الرٹس کی سطح ”سرخ” قرار دی گئی جو انتہائی خطرناک سمجھی جاتی ہے جب کہ ایفل ٹاور کی چوٹی کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا۔جرمنی میں ریل سروس معطل، درجہ حرارت سے ریلوے ٹریک مڑ گئے۔اٹلی کی پاڈ ندی میں پانی کی سطح 75 فیصد کم ہو چکی ہے، جس سے زراعت بحران کا شکار ہو گئی ہے جب کہ پرتگال اور یونان بھی اسی نوعیت کی گرمی کا سامنا کر رہے ہیں۔
صحت کے اثرات
فرانس کی وزارت صحت کے مطابق، ہیٹ اسٹروک کے کیسز میں صرف دو ہفتوں میں 120% اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔برطانیہ کے اسپتالوں میں بچوں اور بوڑھوں کے لیے ایمرجنسی کولنگ یونٹس قائم کیے گئے ہیں۔
حکومتی ردعمل
یورپی یونین نے 3 جولائی 2025 کو ”کلائیمٹ ایمرجنسی ریزیلینس پیکج” کا اعلان کیا،جس میں متاثرہ شہروں کے لیے فوری فنڈز، ہیٹ الرٹ سسٹم کی اپ گریڈنگ، اور مقامی سطح پر واٹر کینالز کی بحالی کا منصوبہ شامل ہے۔
وجہ کیا ہے؟ سائنس کی روشنی میں
ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے، جہاں صنعتی ترقی کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین جیسے گیسوں کی سطح زمین کی فضا میں گرمی کو پھنساتی جا رہی ہے۔ماہرین کے مطابقجیٹ اسٹریمکی خرابی شمالی نصف کرے میں ہواؤں کے بہاؤ کا نظام غیر معمولی حد تک سست ہو چکا ہے، جس سے گرم ہوا ایک ہی علاقے میں پھنس جاتی ہے۔شہری علاقوں میں آبادی کے دباؤ کی وجہ سے یورپ کے بڑے شہروں میں اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ شدید ہو چکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے اس گرمی کی لہر کو کم از کم 2 سے 4 ڈگری سیلسیس تک زیادہ گرم بنا دیا ہے۔
اثرات
گرمی کی یہ لہر یورپ کے معاشی اور انسانی تانے بانے کو چیلنج کر رہی ہے جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی خاص طور پر اسپین، فرانس اور یونان میں زیتون، گندم اور انگور کی پیداوار بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔دوسری جانب توانائی بحران کے باعث بجلی کی طلب میں بے پناہ اضافہ، ہوا ہے جس سے کئی ممالک کو رولنگ بلیک آؤٹ کا سامناہے۔کئی یورپی سیاحتی مقامات پر سیزن منسوخ کیے جا چکے ہیں۔نچلے طبقے کے لوگ، جو ایئر کنڈیشنڈ یا محفوظ رہائش گاہوں سے محروم ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔تحقیق کے مطابق گرمی کی اس لہر کے نتیجے میں یورپ کی جی ڈی پی میں 0.5فیصد کی کمی متوقع ہے۔
مستقبل کے خدشات: کیا یہ نیا معمول بن چکا ہے؟
عالمی موسمیاتی تنظیم اور کلائیمٹ رسک انڈیکسدونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر گلوبل وارمنگ 1.5°C سے اوپر گئی (جو کہ اب ممکنہ لگتا ہے)، تو یورپ میں ہر سال ایسے موسم کا سامنا معمول بن جائے گا۔
2050تک یورپ کے جنوبی علاقے خاص طور پر اسپین، اٹلی اور یونان کچھ مہینوں کے لیے”انسانی سکونت کے لیے غیر موزوں ” ہو سکتے ہیں۔گرمی سے ہونے والی سالانہ اموات 2022 کی نسبت تین گنا بڑھ سکتی ہیں۔
حل موجود ہیں، مگر وقت تیزی سے گزر رہا ہے
قابلِ تجدید توانائی کو ترجیح دینا اور فوسل فیول پر انحصار کم کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔شہری منصوبہ بندی میں گرین انفراسٹرکچر جیسے پارکس، واٹر چینلز اور گرین چھتیں شامل کی جائیں۔ہیٹ ویو الرٹ سسٹمز کو عام شہریوں کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ رسائی بنایا جائے۔پانی کی پالیسی ازسرنو ترتیب دی جائے، کیونکہ یورپ کے دریا بھی اب محفوظ نہیں۔
یورپ ایک عالمی انتباہ بن چکا ہے
یورپ میں موجودہ گرمی کی لہر دراصل آنے والے عالمی خطرات کی جھلک ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک بھی ایسی شدید موسمی تبدیلیوں کا سامنا کر رہے ہیں، تو ترقی پذیر دنیا، بشمول پاکستان، کہاں کھڑی ہے؟
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ زندگی کا مسئلہ بن چکی ہے اور ہمیں اب بیانات سے آگے، عمل کی دنیا میں قدم رکھنا ہو گا۔