فروزاں رپورٹ
اگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت اپنے شہریوں کو موسمیاتی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی تو باقی دنیا کی حالت کیا ہو گی؟
امریکہ، جو ترقی یافتہ ممالک میں موسمیاتی اورماحولیاتی اقدامات میں سرفہرست ہونے کا دعویدار رہا ہے، آج خود ایک شدید موسمیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی ریاست ٹیکساس میں آنے والا شدید سیلاب اس بحران کی تازہ ترین جھلک ہے، جس نے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا بلکہ ہزاروں افراد کو بے گھر بھی کر دیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ان تبدیلیوں کا تسلسل ہے جو موسمیاتی توازن کو بگاڑنے کا نتیجہ ہیں۔
بارشوں کا قہر اور حکومتی بے بسی
جون 2025 میں ٹیکساس کے کئی علاقوں میں اوسط سے تین گنا زیادہ بارش ہوئی۔ ہیوسٹن، آسٹن اور سین اینٹونیو جیسے شہر زیرِ آب آ گئے۔ نیشنل ویدر سروس کے مطابق، کچھ مقامات پر 20 انچ تک بارش ریکارڈ کی گئی۔ پانی کے تیز بہاؤ سے پل، سڑکیں اور رہائشی علاقے متاثر ہوئے اور ہزاروں مکانات بجلی، پانی اور انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہو گئے جب کہ سو سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔یہ سیلاب محض قدرتی آفت نہیں تھا، بلکہ یہ ایک انتباہ ہے کہ ٹیکساس کا شہری اور زرعی نظام اب روایتی ماحولیاتی ترتیب پر انحصار نہیں کر سکتا۔
گرین ہاؤس گیسز اور بڑھتا درجہ حرارت
امریکہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرنے والا ملک ہے۔ صرف 2023 میں امریکہ نے تقریباً 5.1 بلین میٹرک ٹن کاربن کا اخراج کیا۔ ٹیکساس، جو توانائی پیداوار کا مرکز ہے، وہی ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ فوسل فیول استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں گرمی کی شدت، خشکی اور پھر اچانک بارشوں کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی ادارہ موسمیات کے مطابق، شمالی امریکہ کے درجہ حرارت میں 1901 کے بعد سے اوسطاً 1.8°C اضافہ ہو چکا ہے، اور یہ اضافہ خاص طور پر 2000 کے بعد تیز ہو گیا ہے۔
تباہ کن اثرات: صرف قدرتی نہیں، معاشی و سماجی بھی
ٹیکساس کا حالیہ سیلاب امریکہ کی معیشت پر بھی اثر انداز ہوا۔ زراعت، تیل اور گیس کی پیداوار، اور شہری انفراسٹرکچر کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی کے مطابق، ابتدائی تخمینے میں 15 بلین ڈالرسے زائد کا معاشی نقصان ریکارڈ ہوا ہے۔سیلاب کے باعث ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے، اسکول بند ہوئے اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ یہ مسائل صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
ٹیکساس اکیلا نہیں
ٹیکساس کا حالیہ سیلاب ایک بڑا سانحہ ضرور ہے، مگر یہ امریکہ کی واحد ریاست نہیں جو موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں دیگر ریاستیں بھی شدید موسمیاتی مسائل کا سامنا کر چکی ہیں۔کیلیفورنیا میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران جنگلات کی آگ میں خوفناک اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2023 میں تقریباً 2.5 ملین ایکڑ سے زیادہ رقبہ آگ کی لپیٹ میں آ گیا، جس سے ہزاروں افراد بے گھر ہوئے اور ہوا کا معیار خطرناک حد تک خراب ہوا۔یہ آگ صرف شدید گرمی کا نتیجہ نہیں، بلکہ برسوں سے جاری خشک سالی، کم برفباری، اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مٹی کی نمی میں کمی کے اثرات بھی ہیں۔
فلوریڈا، جو کہ امریکہ کی سب سے زیادہ سیلاب زدہ ریاستوں میں شامل ہے، اب سالانہ درجنوں سمندری طوفانوں کا سامنا کرتی ہے۔ 2022 کے سمندری طوفان ”ایان” نے 112 افراد کی جان لی اور 112 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان کیا۔ بڑھتی ہوئی سطحِ سمندر نے شہری علاقوں، خاص طور پر میامی، کو مستقل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ایریزونا، خصوصاً فینکس شہر، میں گرمی کی لہریں جان لیوا حدوں تک پہنچ چکی ہیں۔ جولائی 2024 میں شہر میں 23 دن تک مسلسل درجہ حرارت 43°C سے اوپر رہا۔ اس گرمی نے نہ صرف بجلی کے نظام کو متاثر کیا بلکہ لو لگنے سے 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
بین الریاستی تضادات اور ماحولیاتی پالیسیوں کا فرق
یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ میں ماحولیاتی بحران قومی مسئلہ ہے مگر ہر ریاست کی کیفیت مختلف ہے۔ کچھ ریاستیں جیسے کیلیفورنیا قابلِ تجدید توانائی، جنگلات کے تحفظ اور کاربن اخراج میں کمی کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہیں، جب کہ دیگر ریاستیں جیسے ٹیکساس اور ایریزونا اب بھی فوسل فیول پر انحصار کر رہی ہیں۔یہ ریاستی تضادات امریکی وفاقی نظام میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں، جہاں قومی سطح کی ماحولیاتی پالیسی پر عمل درآمد میں غیر یگانگت پائی جاتی ہے۔
موسمیاتی انصاف اور امریکہ کی دوہری پالیسی
امریکہ ایک طرف پیرس معاہدے کا حصہ ہے اور دوسری طرف فوسل فیول انڈسٹری کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے۔ 2024 میں شائع ہونے والی ”آئی پی سی سی“ (آئی پی سی سی) کی رپورٹ کے مطابق، اگر امریکہ سمیت صنعتی ممالک نے اخراجات کو موجودہ سطح پر رکھا تو دنیا 2035 تک 2°C کی حد کو عبور کر لے گی جس کے بعد واپسی ممکن نہیں ہو گی۔
پیرس معاہدہ اور امریکہ کی غیر مستقل وابستگی
پیرس معاہدہ 2015 میں عالمی برادری نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک تاریخی اقدام کے طور پر اپنایا۔ مگر حیران کن طور پر 2017 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر دیا۔ یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ یہ معاہدہ امریکی صنعت و معیشت کے لیے ”غیر منصفانہ” ہے۔معاہدے سے الگ ہونا نہ صرف اخلاقی بلکہ عملی طور پر بھی ایک بہت بڑا دھچکا تھا، کیونکہ امریکہ اس وقت بھی دنیا کے دوسرے سب سے بڑے کاربن اخراج کنندہ ملک کے طور پر موجود تھا۔ ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے عالمی سطح پر موسمیاتی کوششوں کو سست رفتاری کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سے ترقی پذیر ممالک کی حوصلہ شکنی ہوئی۔
2021 میں صدر جو بائیڈن کی حکومت نے دوبارہ پیرس معاہدے میں شمولیت اختیار کی، اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو 2030 تک 2005 کی سطح سے 50-52 فیصد تک کم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ مگر اس کے باوجود زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ فوسل فیول سبسڈیز، تیل اور گیس کی نئی لیزنگ، اور ریاستی سطح پر ماحولیاتی مزاحمت اب بھی جاری ہے۔
عالمی اعتماد کا بحران
امریکہ کی اس غیر مستقل روش نے دنیا کے کئی ممالک کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک، جو گرین فنڈ پر انحصار کرتے ہیں، ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی انصاف کی بات کرنے والا ملک خود اپنے اندر ریاستی تضادات کا شکار ہے — جو ٹیکساس جیسے سانحات کو روکنے میں ناکامی کا ایک بڑا سبب ہیں۔امریکی ریاستیں جیسے کیلیفورنیا اور نیویارک نسبتاً ماحول دوست پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، لیکن ٹیکساس جیسی ریاستیں کاربن معیشت سے جڑی ہوئی ہیں جہاں موسمیاتی اصلاحات سست روی کا شکار ہیں۔
حل کیا ہے؟
مقامی سطح پر اخراج میں کمی کی پالیسیاں اپناتے ہوئے ٹیکساس جیسی ریاستوں کو اپنی توانائی کی پالیسی پر ازسرِنو غور کرنا ہو گا اور فوسل فیول پر انحصار کم کرتے ہوئے قابلِ تجدید ذرائع کی طرف بڑھنا ہو گا۔ماحولیاتی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کرتے ہوئے شہری منصوبہ بندی میں نکاسی آب، بارشوں کا نظام، اور ماحولیاتی خطرات کی پیشگی وارننگ کو شامل کرنا ہوگا۔اس کے ساتھ امریکہ کو قومی سطح پر موسمیاتی قانون سازی کرنی ہو گی جس میں ہر ریاست کو کاربن اخراج میں کمی کے واضح اہداف دینا ہوں گے۔
ٹیکساس کا بحران صرف امریکہ کا بحران نہیں یہ ایک عالمی انتباہ ہے۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت اپنے شہریوں کو موسمیاتی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی تو باقی دنیا کی حالت کیا ہو گی؟یہ وقت ہے کہ امریکہ محض وعدوں سے آگے بڑھے اور عملی اقدامات کرے، ورنہ ٹیکساس جیسے سانحات کل کی عام حقیقت بن جائیں گے۔
نوٹ
اس آرٹیکل کے لیے معلومات اور تحقیق درجِ ذیل معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہے: عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او)، بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی)، نیشنل ویدر سروس، فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی (فیما)، امریکی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے)، نیشنل اوقیانوسی و ماحولیاتی انتظامیہ (نوآ)، اور سائنسی تحقیقی جریدہ ”سائنس”۔