فرحین (اسلام آباد)
حیاتیاتی تنوع کا تحفظ نہ صرف ہماری موجودہ نسل بلکہ آئندہ نسلوں کی بقاء کا ضامن ہے۔
ہر سال 22 مئی کو دنیا بھر میں ”حیاتیاتی تنوع کا عالمی دن” منایا جاتا ہے تاکہ زمین پر موجود تمام جانداروں،نباتات، حیوانات، کیڑے مکوڑوں اور خوردبینی مخلوقات کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر نوع (اسپیشیز) قدرتی ماحول کا ایک بنیادی ستون ہے اور اس کی بقا، انسانی زندگی کے تسلسل، خوراک کی حفاظت، صحت مند ماحولیاتی نظام اور پائیدار معیشت کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے انسان کی غیر محتاط سرگرمیاں جیسے جنگلات کی کٹائی، ماحولیاتی آلودگی، زمین کا حد سے زیادہ استعمال، صنعتی ترقی اور حیاتیاتی رہائش گاہوں کی تباہی، حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات سے دوچار کر چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق ہر آٹھ میں سے ایک نوع معدومی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں، جہاں ماحولیاتی حکمتِ عملی ناکافی ہے۔حیاتیاتی تنوع کا زوال زراعت، خوراک، پانی، اور صحت پر گہرے منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ترقی، قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ہونی چاہیے۔
رواں برس منائے جانے والے عالمی دن کا موضوع اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) نے ”فطرت اور پائیدار ترقی کے ساتھ ہم آہنگی“ رکھا ہے، جو 2030 ایجنڈا اور کنمنگ-مونٹریال عالمی فریم ورک برائے حیاتیاتی تنوع کے باہمی تعلق کو اجاگر کرتاہے۔
اس موقع پر منسٹری آف کلائمٹ چینج اینڈ کوآرڈینیشن کے ڈائریکٹر بائیوڈائیورسٹی جناب نعیم راجہ نے فروزاں سے ایک خصوصی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا
”بائیوڈائیورسٹی پاکستان میں ایک کراس-کٹنگ سبجیکٹ ہے جو معیشت، تعلیم، ثقافت اور انسانی صحت سمیت ہر شعبے سے جڑا ہوا ہیجسے قومی دھارے میں شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔”انہوں نے وضاحت کی کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بائیوڈائیورسٹی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی توسیع، صنعتی ترقی، جنگلات کی کٹائی، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی ان خطرات کی بڑی وجوہات ہیں۔
حیاتیاتی تنوع کی صورتحال
انہوں نے عالمی سطح پر ہونے والی تحقیقاتی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں حیاتیاتی تنوع میں نمایاں کمی آئی ہے، اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں قدرتی وسائل پر دباؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔”
مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا تناظر
مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں بائیوڈائیورسٹی کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ”یہاں کئی نایاب پرندے اور جانور موجود ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، غیرقانونی تعمیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کئی انواع کی ہجرت یا معدومی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔”
عالمی سطح پر اہمیت اور پاکستان کی نمائندگی
نعیم راجہنے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بائیوڈائیورسٹی کنونشن (سی بی ڈی)کو وہ عالمی توجہ نہیں ملی جو کلائمٹ چینج جیسے معاملات کو حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ممالک کی نمائندگی عالمی فورمز پر محدود ہوتی ہے، اور اس میں بجٹ و وسائل کی کمی بھی بڑی رکاوٹ ہے۔”
تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات
حکومتی سطح پر کیے گئے اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارت ماحولیات نے کئی منصوبے شروع کیے ہیں، جیسے کہ مارخور اور برفانی چیتے جیسے نایاب جانوروں کی بحالی کے لیے کامیاب پراجیکٹس، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بائیوڈائیورسٹی کی بحالی ممکن ہے۔”
آگاہی اور تعلیمی اقدامات
انہوں نے اس بات پر زور دیا کے ”’شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں بائیوڈائیورسٹی سے متعلق شعور بیدار کرنا ناگزیر ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں، اسکولوں اور جامعات کو شامل کر کے ہم ایک پائیدار مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔”
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مقامی پودوں کے تحفظ، جنگلی حیات کے محفوظ علاقوں کے قیام اور ماحولیاتی آگاہی کو فروغ دے کر فطری نظام کی حفاظت کریں۔ حیاتیاتی تنوع کا تحفظ نہ صرف ہماری موجودہ نسل بلکہ آئندہ نسلوں کی بقاء کا ضامن ہے۔