فروزاں ڈیسک
آج دنیا کی نصف آبادی ایک اضافی مہینہ شدید گرمی میں جی رہی ہے۔ یہ معمول نہیں، بلکہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
مئی 2024 سے مئی 2025 کے درمیان دنیا نے کم از کم 67 شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کیا۔ ہر ایک نے یا تو درجہ حرارت کے ریکارڈ توڑے، انسانوں اور املاک کو نقصان پہنچایا، یا دونوں۔ چاہے وہ جولائی 2024 میں بحیرہ روم کی مہلک گرمی ہو، مارچ 2025 میں وسطی ایشیا کی بے نظیر تپش، یا فروری میں جنوبی سوڈان کی غیر متوقع جھلسا دینے والی حدت،ہر واقعے کا محرک ایک ہی ہے اور وہ ہے: موسمیاتی تبدیلی۔
تازہ ترین عالمی تجزیے کے مطابق، ان تمام 67 واقعات کے امکانات موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کہیں زیادہ بڑھ چکے تھے۔ دنیا کے 195 ممالک اور خطوں میں اب شدید گرمی والے دنوں کی تعداد کم از کم دگنی ہو چکی ہے جتنی وہ انسانی مداخلت کے بغیر ہوتی۔ اور اس گرمی کا اثر کتنا گہرا ہے؟ 4 ارب افراد،یعنی دنیا کی نصف آبادی کو پچھلے سال میں کم از کم ایک اضافی مہینہ شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک بدلتی ہوئی حقیقت
رپورٹ کے مطابق، دنیا میں کوئی ایسا کونہ نہیں بچا جہاں انسانوں کو ماحولیاتی بگاڑ کی تپش نہ پہنچی ہو۔ کلائمیٹ سنٹرل، ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن، اور ریڈ کراس کلائمیٹ سینٹرکے سائنس دانوں کی مشترکہ تحقیق نے اس بات کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا ہے کہ انسانوں کی پیدا کردہ گرین ہاؤس گیسز کس طرح دنیا کو ایک ”گرم سیارہ” بنا چکی ہیں۔
اس تحقیق میں ”کلائمیٹ شفٹ انڈیکس” نامی سائنسی پیمانے کا استعمال ہوا، جو موجودہ درجہ حرارت کا موازنہ اس تصوراتی دنیا سے کرتا ہے جہاں صنعتی دور کے بعد موسمیاتی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔ سائنس دانوں نے نتیجہ نکالا کہہر ملک میں انسانی سرگرمیوں نے شدید گرمی کے دنوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ میں سائنسدانوں نے یکم مئی 2024 سے یکم مئی 2025 تک ہر ملک یا علاقے میں ایسے دنوں کی تعداد شمار کی جن میں درجہ حرارت 1991 سے 2020 کے درمیان کے 90 فیصد تاریخی درجہ حرارت سے زیادہ رہا۔ انہوں نے ”کلائمیٹ شفٹ انڈیکس” کے ذریعے تجزیہ کیا کہ ان دنوں میں سے کتنے دن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زیادہ امکان والے بنے۔ یہ انڈیکس درجہ حرارت کا اس دنیا سے موازنہ کرتا ہے جہاں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔
اروبا جیسا چھوٹا کیریبین جزیرہ، جو پہلے صرف 45 دن سخت گرمی جھیلتا تھا، اب 187 دن ایسے دن گزار چکا ہے۔ مائکرونیشیا جیسے خطے میں سال کے 57 دن اضافی تپش نے تباہی مچائی۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی 46 دن سخت گرمی کے تھے،جن میں سے 24 دن ”براہِ راست انسانی سرگرمیوں ” کی دین تھے۔کلائمیٹ سنٹرل کی ماہرِ موسمیات کرسٹینا ڈال کے مطابق، ”دنیا کا کوئی حصہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی شدید گرمی سے محفوظ نہیں رہا۔ دنیا کی نصف آبادی کو اضافی ایک مہینہ شدید گرمی جھیلنا پڑی۔ یہ اعداد چونکا دینے والے ہیں۔”
گرمی کا بوجھ کون اٹھاتا ہے؟
شدید گرمی صرف درجہ حرارت کا مسئلہ نہیں، یہ ایک صحت عامہ کا بحران ہے۔ گرمی انسانی جسم کو ٹھنڈا رکھنے کی قدرتی صلاحیت کو مفلوج کر دیتی ہے، جس سے ہیٹ اسٹروک، ہیٹ ایکزاشن، دل کے امراض، ذہنی صحت کے مسائل اور ذیابیطس جیسے امراض شدت اختیار کر لیتے ہیں۔غریب طبقات، کھلے آسمان تلے کام کرنے والے مزدور، بیمار و معذور افراد، بزرگ شہری، بچے، خواتین اور وہ لوگ جن کے پاس ٹھنڈا ماحول میسر نہیں،یہ سب شدید خطرے میں ہیں۔کرسٹینا ڈال، جو اس رپورٹ کی شریک مصنفہ ہیں، کہتی ہیں: ”آج دنیا کی نصف آبادی ایک اضافی مہینہ شدید گرمی میں جی رہی ہے۔ یہ معمول نہیں، بلکہ خطرے کی گھنٹی ہے۔”
کیا حل ہے؟
ماہرین متفق ہیں کہ اس بحران کا اصل حل صرف ایک ہے اور وہ ہے فوسل فیولز کا مکمل خاتمہ۔ کوئلہ، تیل، اور گیس جیسے ایندھن نے زمین کو صنعتی انقلاب سے لے کر آج تک 1.3ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کر دیا ہے۔ سال 2024 وہ پہلا سال تھا جب دنیا کا اوسط درجہ حرارت 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا—یہ وہ حد ہے جسے عبور کرنا اقوامِ متحدہ نے ”ناقابلِ واپسی سرخ لائن” قرار دیا تھا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر نک لیچ کہتے ہیں ”جب تک عالمی سطح پر تیل اور گیس کے استعمال کو ترک نہیں کیا جاتا، ہم ہر سال گرمی کی نئی اور تباہ کن شکلوں کا سامنا کرتے رہیں گے۔”ڈاکٹر ڈال مشورہ دیتی ہیں کہ امریکہ کے ”سینٹر فارڈیزیزکنٹرول اینڈپریوینشن(سی ڈی سی)” کی گائیڈ لائنز کو اپنایا جائے، تاکہ گرمی سے متعلق اموات کو روکا جا سکے۔ ان کے مطابق،زیادہ تر گرمی سے ہونے والی اموات مکمل طور پر قابلِ روک تھام ہیں۔ شرط صرف تیاری اور آگاہی کی ہے۔”
پاکستان: خطرے کی لکیر پر
رپورٹ میں اگرچہ پاکستان کا انفرادی طور پر ذکر نہیں، لیکن زمینی حقائق چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں۔ 2024 اور 2025 کے دوران سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں درجہ حرارت بارہا 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے۔ جیکب آباد، دادو، سبی، بے نظیر آباد اور نوکنڈی جیسے شہر دنیا کے گرم ترین مقامات میں شامل ہو چکے ہیں، جب کہ کراچی میں 2025 کے مئی کے آغاز میں گرمی نے 47.5ڈگری سینٹی گریڈ کی سطح کا سامنا کیا جو شہر کی تاریخ کے خطرناک ترین دنوں میں سے ایک تھا۔
گرمی کی شدت نے نہ صرف انسانی صحت کو خطرے میں ڈالا بلکہ زرعی پیداوار، پانی کی دستیابی اور توانائی کے نظام پر بھی شدید اثر ڈالا ہے۔
صرف مئی 2025 میں، سندھ اور پنجاب میں ہیٹ اسٹروک سے 85 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں، جب کہ ہزاروں افراد اسپتالوں میں داخل کیے گئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بعض شہروں میں ”ہیٹ ویو ایمرجنسی الرٹ” جاری کیا اور عارضی کولنگ سینٹر قائم کیے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی اور دیر سے کیے گئے۔
ماحولیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر موسمیاتی ایمرجنسی کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو آئندہ چند برسوں میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہر بھی ”ناقابلِ رہائش” کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ گرمی کو ”قدرتی” نہ سمجھا جائے۔ یہ انسان کے فیصلوں کا انجام ہے—اور اسے بدلنا ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔