سعدیہ عبید خان
ایک لمحے کی ”یادگار” تصویر آپ کی زندگی پر ” بھاری” پڑ سکتی ہے۔
ایک خاندان کے ۱۲ افراد دریا سوات کی بے رحم تیز لہروں کا شکار ہوئے اور کنارے پر کھڑے افراد سواے اس منظر کی فلم بندی اور کف افسوس ملنے کے کچھ نہ کر سکے۔کسی نے اداروں کی ناقص کارکردگی پر سوال اٹھاے تو کسی نے پھلتی پھولتی ٹورازم انڈسٹری کے لیے متعین رہنما اصولوں کی پاسداری نہ کرنے والے خاندانوں کو مورد الزام ٹہرایا۔سیاحتی مقامات پرجان بچانے والی سہولیات کے علاوہ مون سون میں اچانک آنے والے سیلابی ریلوں کے بروقت الرٹ کا فقدان بھی انتہائیہم موضوع ہے۔
معروف ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز نے سوات کے سانحے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ،یہ وہی دریائے سوات ہے جہاں یہ سانحہ رونما ہوا، اور تقریبا پورا خاندان ایک گھنٹے سے زیادہ بے یارو مددگار مدد کا منتظر رہا، لیکن وہ مدد کہیں سے نہ آئی اور پھر پورا خاندان دریا میں بہہ گیا۔
یہ تصویر ہم نے جون 2011 میں کھنچی تھی، مون سون سے پہلے یہ دریا عموما اتنا ہی پرسکون ہوتا ہے کہ ہوٹل والے سیاحوں کو اس دریا میں پلنگ اور کرسیاں ڈال کر بٹھاتے ہیں اور لوگ خوش خوش پانی میں پیر ہلاتے کھاتے پیتے ہیں۔لیکن یہ مون سون کا موسم ہے، شدید بارشیں، گلیشیئرز میں موجود جھیلوں کا پھٹنا، کیچڑ کا خطرناک سیلاب (ڈیبری فلو)عام بات ہے۔ (قراقرم پہاڑوں سے آنے والے ایک سیلاب کے تو ہم بھی شاہد ہیں جس میں شگر اور اسکردوکے قریب ایک گاؤں غالبا کوتھم پائن دھنس گیا تھا۔)،یہسیلاب چونکہ بلندی سے آتے ہیں لہذا اس پانی کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے ہمارے گمان سے بھی زیادہ، راہ میں آنے والی مٹی، بڑے بڑے پتھر اور درخت خس و خاشاک کی طرح بہا لاتا ہے۔ہماری معلومات کے مطابق مدین کے مقام پر کلاؤڈ برسٹ ہوا تھا جس سے دریا میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ مدین سے چلنے والا یہ طوفانی تیز ریلا ایک گھنٹے بعد اس مقام پر پہنچا جہاں یہ بدنصیب سیاح دریا پر موجود تھے۔
جی ہاں پورے ایک گھنٹے بعد۔۔۔۔ اس قیمتی ایک گھنٹے میں کیا کچھ ہوسکتا تھا؟
پورے علاقے کے ہوٹلوں، تھانوں کو فون پر اطلاع دی جاسکتی تھی، ہوٹل والے سیاحوں کو الرٹ کردیتے کہ دریا سے دور رہیں، ارلی وارننگ سسٹم کی طرح مسجدوں سے اعلانات کیے جاسکتے تھے، پولیس کی گاڑیاں علاقے میں ہوٹر بجا کرمیگا فون پر اعلانات کرکے لوگوں کو الرٹ کرسکتی تھیں۔ مگر کچھ بھی نہ کیا جاسکا۔پھر جب وہ سیاح پھنس گئے تو کشتیاں بھی منگوائی جاسکتی تھیں، دریائے سوات میں کشتی رانی بھی ہوتی ہے اور رافٹنگ بھی۔ ہوٹلوں میں رسیاں بھی ہوتی ہیں اور مقامی لوگ اچھے تیراک بھی ہوتے ہیں، رسی کی مدد سے کوشش کی جاسکتی تھیں، آخری حل کے طور پر لائف جیکٹس پر بھی یاد رہے کہ ان علاقوں میں 78 افراد ایسے ہی حادثوں میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔سوچا جاتا مگر یہ بھی نہ ہوا۔
نااہل نالائق انتظامیہ کو گالیاں دیں، بددعائیں بھی دیں، پھانسی پر بھی لٹکادیں مگر یاد رہے کہ ایسے ہی حالات سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ این ڈی ایم اے جیسے ادارے بھی موجود ہیں جن کا کام ہی آفات سے نمٹنا ہے، مگر آپ ان کے پیج پر وزٹ کریں تو وہ صرف موسم کا حال بتارہے ہیں، موسمی حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی دور دور تک کہیں موجود نہیں۔جان کی امان پاؤں تو یہ بھی بتاتی چلوں کہ ان ہی اداروں کے بہت سے افراد نے ابھی یو این کی آفات سے متعلق عالمی کانفرنس بھی اٹینڈ کی ہے، شاید کچھ سیکھا بھی ہو۔ مگر عملی اقدامات ندارد ہیں۔
سید فیصل کریم صحافی اور اینکر ہیں۔سیاحت کا شوق رکھتے ہیں حال ہی میں سوات سے واپس آے ہیں انہوں نے آنکھوں دیکھی کچھ یوں بیان کی۔
میں دو ہزار بیس سے اب تک پانچ مرتبہ سوات جا چکا ہوں۔۔ کچھ وہاں کی خوبصورتی اور کچھ وہاں کے لوگ۔۔ وہ وجوہات ہیں جو بار بار مجھے وہاں کھینچ لے جاتے ہیں۔دو ہزار بیس میں پہلی مرتبہ جب کالام جانے کی غرض سے ایک رات مینگورہ رکنے کا ارادہ کیا تو شام میں کھانے کے ارادے سے باہر نکلا۔۔محل وقوع ایسا ہے کہ اگر آپ کی چہرہ فضا گھٹ کی طرف ہے تو آپ کے سیدھے ہاتھ پہ رہائشی ہوٹل پلس ریستوراں۔۔ جبکہ الٹے ہاتھ پہ دریا اور اس کے کنارے ریستوراں ہیں جی قربان” ہوٹل کے سامنے والا ہوٹل جو دریا کنارے تھا۔۔ کھانے کے لیے انتخاب کیا تو دیکھا کہ دریا بہت کم چل رہا ہے۔۔ پوچھنے پہ پتا چلا کہ انتظامیہ دریا کا رخ موڑ رہی ہے اور ترقیاتی کام جاری ہے۔۔نیلی جیکٹ پہنے تصویر میں میرے عقب میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دریا بالکل بھی نہیں ہے۔۔ بس تھوڑی مقدار میں پانی موجود ہے۔۔ جی ہاں۔۔ یہاں کبھی دریا بہتا تھا۔
دو ہزار پچیس۔۔ اس جگہ ابھی بھی کام جاری تھا کہ جب میں اپریل کے مہینے میں بیگم کیساتھ پہنچا۔۔ اس بار تو باضابطہ مشینری اپنی آنکھوں سے دیکھی۔۔ تھوڑا آگے یعنی برج سوات کے سامنے باقاعدہ پشتے بنانے کا کام بھی جاری تھا۔۔میں نے علوینہ سے کہا۔۔ یاریہ دریا کا رخ بھی موڑ رہے ہیں، پشتے بھی بنارہے ہیں۔۔ یہ قدرت کیساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔۔ اگر دریا کو طیش آیا تو سب بہا لے جائے گا۔پھر وہ ہی ہوا۔۔۔۔اب کیوں کہ دریا کا رخ موڑا گیا ہے تو عام دنوں میں یہاں سب کچھ خشک ہوتا ہے۔۔ بس پتھر ہی پتھر ہوتے ہیں۔۔ اس لئے باہر سے آنے والی اس بدنصیب فیملی کو معلوم نہیں ہوا ہوگا۔۔ خالی جگہ دیکھ کر وہ تصویر بنانے چلے گئے۔۔ پیچھے سے سیلاب نے آلیا۔
سیاحتی سیزن کے پہلے دو ماہ کے اندر ہونے والے حادثات کا ایک جائزہ
1- 3 مئی
لوئر کوہستان میں آلٹو گاڑی میں راولپنڈی کی ایک فیملی کے آٹھ افراد،گاڑی گہری کھائی میں گرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔ گنجائش سے زیادہ مسافراور پہاڑوں کے سفر سے ناواقفیت اس حادثے کی وجہ بنی۔
دومئی سے 16 مئی
گجرات کے چار دست گلگت بلتستان میں اپنی گاڑی سمیت لاپتہ ہوئے جن کی لاشیں اور گاڑی تقریبا دس دن کی تلاش کے بعد جگلوٹ سکردو روڈ پر ایک گہری کھائی میں دریا کے ساتھ ملیں ممکنہ وجہ: تھکاوٹ و نیند اور رات کو پہاڑوں میں لانگ ڈرائیو۔
3- 28 مئی
مارتونگ وادی (بونیر) میں لاہور کی ایک فیملی ماں جوان بیٹوں سمیت گاڑی گہری کھائی میں گرنے سے جاں بحق۔ممکنہ وجہ: پہاڑی علاقوں میں ڈرائیونگ سے ناواقفیت
4- 20 جون
ناران بٹہ کنڈی سوہنی آبشار کے گلشئیر کے نیچے تصویریں بنانے کی غرض سے کھڑے لاہور کے رہائشی باپ، بیٹا اور کزن اچانک گلشئیر گر کے دبنے سے تینوں ہلاک ہو گئے۔
5- 21 جون
کالام، اتروڑ شاہی باغ میں کشتی رانی کرتے ہوئے کشتی الٹنے سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ڈوب گئے جن میں پانچ کو زندہ بچا لیا گیا جبکہ پانچ (دو خواتین اور تین بچوں) کو زندہ نہ بچایا جاسکا۔
ممکنہ وجہ: کشتی کا انجن فیل ہو گیا۔ لائف جیکٹ کسی نے بھی نہیں پہنی تھی اور کشتی پانی کے تیز بہاؤ کا شکار ہو گئی
6- 24 جون
کاغان میں ایک گاڑی دریا کنارے گہری کھائی میں جا گری۔ میاں بیوی جاں بحق، چھوٹا بچہ معجزانہ طور پر محفوظ رہا۔ممکنہ وجہ: رات کی ڈرائیو، تھکاوٹ و نیند، راستے سے ناواقفیت
7- 27 جون
مینگورہ دریا سوات کے سیلابی ریلے میں 16 افراد بہہگئے۔ دس افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ تین افراد کو زندہ بچایا جا سکا ہے۔ممکنہ وجہ: غیر مقامیوں کا دریا میں آنے والے سیلابی ریلے کا اندازہ نہ کرسکنا اور کسی پیشگی وارننگ سسٹم کا نہ ہونا۔پچھلے سیاحتی سیزن میں صرف نیلم ویلی میں لگ بھگ 6 حادثات ہوئے تھے، مسافر ویگینیں دریا میں جا گری تھیں جن میں درجنوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ان حادثات کی وجہ بھی تھکاوٹ/ ڈرائیورز سے لگاتار ڈرائیونگ کروانا تھی۔
ماجد فرید ساٹی معروف سیاح اور لکھاری ہیں۔۔ہر سال پاکستان کے کونے کونے کی سیر کرنے والے ماجد نے سیلفی جیسے رجحانات اور بے احتیاطی کو حادثات کا موجب ٹہرایا۔ ان کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی کا کیا کہنا! ہر سال گرمیاں آتے ہی ہمارے کچھ بہادر اور ”ایڈونچر پسند” افراد اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان ”خطرناک جنتوں ” کا رخ کرتے ہیں۔ اور واہ رے ہماری قسمت! ہر سال حادثات، اموات اور لاپتہ ہونے کی خبریں بھی ساتھ ساتھ سننے کو ملتی ہیں۔ کیا ہم واقعی وہاں سکون اور تفریح کے لیے جاتے ہیں،یا اپنی قسمت کو چیلنج کرنے؟
یقیناً، قدرتی آفات پر تو کسی کا زور نہیں، لیکن زیادہ تر ”سانحات” ہماری اپنی ذہانت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جی ہاں! وہی پرانی، کھٹارہ گاڑیوں میں پہاڑیوں پر چڑھنا، موسم کی پیش گوئی کو مذاق سمجھنا، اور ”سیلفی” کے چکر میں کھائیوں میں چھلانگیں لگانا۔ بھئی، جان ہے تو جہاں ہے، مگر ہمارے لیے شاید ”سیلفی ہے تو جہان ہے”! کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری ایک ”شاہکار” سیلفی ہمارے پیچھے رونے والوں کے لیے کتنی بڑی اذیت بن سکتی ہے؟ مگر نہیں! ”لائکس” تو زیادہ ضروری ہیں، ہے نا؟
اگر آپ اب بھی شمالی علاقہ جات کا سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں (اور آپ کی بہادری کو سلام ہے)، تو براہ کرم کچھ ”غیر ضروری” باتوں کا خاص خیال رکھ لیں۔اپنی اور دوسروں کی جان بچائیں! (یا کم از کم بچانے کی کوشش کریں۔سفر پر نکلنے سے پہلے محکمہ موسمیات کی تازہ ترین پیش گوئیاں ضرور دیکھیں۔ ہاں، ہم جانتے ہیں کہ آپ موسمیاتی ماہر ہیں، لیکن کبھی کبھی ان کی بھی سن لینی چاہیے۔ غیر متوقع بارشیں یا برفباری آپ کی ”ایڈونچر” کو کچھ زیادہ ہی ”ایڈونچرس” بنا سکتی ہے۔
گاڑی کی جانچ کروائیں: یقینی بنائیں کہ آپ کی گاڑی مکمل طور پر ”ٹوٹ پھوٹ” کا شکار نہیں ہے اور اس کے بریکس، ٹائر اور انجن آپ کو بیچ راستے میں ”اللہ حافظ” کہنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ پہاڑی راستوں کے لیے فور وہیل ڈرائیو گاڑی کو ترجیح دیں۔ سائیکل پر جانے کا ارادہ ہے تو دوبارہ سوچ لیں۔
لاپرواہی سے بچیں، تیز رفتاری اور اوور ٹیکنگ سے گریز کریں۔ پہاڑی راستوں پر ”ریسر” بننے کی ضرورت نہیں۔ یاد رکھیں، ”رفتار کا جنون، قبرستان کا سکون”۔سیلفی اور فوٹوگرافی میں احتیاط:خوبصورت نظاروں کو قید کرنا اچھی بات ہے، لیکن سیلفییا تصویریں لیتے وقت براہ کرم خطرناک جگہوں، کھڑی چٹانوں کے کناروں، یا پھسلن والی جگہوں سے دور رہیں۔
ایک لمحے کی ”یادگار” تصویر آپ کی زندگی پر ” بھاری” پڑ سکتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی توجہ تصویر پر نہیں بلکہ اپنی ”حیاتیاتی بقا” پر ہو۔ کیا پتہ اگلی سیلفی آپ کی آخری سیلفی ہو!مقامی گائیڈ کی خدمات حاصل کریں،اگر آپ کسی نئے یا مشکل راستے پر جا رہے ہیں تو مقامی گائیڈ کی خدمات حاصل کرنا ”مجبوری” نہیں، بلکہ ”عقل مندی” ہے۔ انہیں راستوں اور موسمی حالات کا بہتر علم ہوتا ہے، وہ آپ کو ان جگہوں پر جانے سے روک سکتے ہیں جہاں سے صرف ایک راستہ سیدھا پاتال کی طرف جاتا ہے پانی اور کچھ خشک خوراک ضرور ساتھ رکھیں۔سیاحتی مقامات کے اصولوں پر عمل کریں،کچھ مقامات پر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں، ان پر سختی سے عمل کریں۔
یہ ”فارمیلیٹیز” آپ کی جان بچا سکتی ہیں۔سفر کی منصوبہ بندی کریں،بہتر ہے کہ کسی تجربہ کار ٹریول ایجنسی سے رابطہ کر لیں جو شمالی علاقہ جات کے سفر کا انتظام کرتی ہو۔یاد رکھیں، آپ کی زندگی ان حسین مناظر سے زیادہ قیمتی ہے تفریح ضرور کریں، لیکن ذمہ داری کے ساتھ۔ یہ پہاڑ کسی کا انتظار نہیں کرتے، اگر ہم ان کا احترام نہیں کریں گے تو وہ ہمیں ہر بار ایک امتحان میں ڈالتے رہیں گے۔