تھرپارکر:( نمائندہ خصوصی)سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں کوئلے کی کان کنی کے منصوبے میں مجوزہ توسیع پر مقامی آبادی اور ماحولیاتی انصاف کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
الائنس فار کلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی اور تھر کوئلو راجونی کٹھ نے الگ الگ بیانات میں تھر کول اینڈ انرجی بورڈ میں جمع کروائی گئی اس درخواست کو مسترد کیا ہے جس میں بلاک-ٹو میں کان کنی کی سالانہ حد کو 7.6 ملین ٹن سے بڑھا کر 11.2 ملین ٹن کرنے اور ٹیرف میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
مقامی برادریوں کا مؤقف
تھرپارکر کے مختلف دیہات، بشمول تھاریو ھالیپوٹو، بٹڑا، میہاری اور کھاریو غلام شاہ کے باسیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ہماری زمینیں، پانی، ثقافت اور رہائش خطرے میں ہیں۔ ترقی کی آڑ میں ہماری آواز سنے بغیر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
تھر کوئلو راجونی کٹھ کے مطابق، موجودہ کان کنی کے منصوبوں سے زیرزمین پانی آلودہ ہو رہا ہے، نقل مکانی بڑھ رہی ہے، اور دیہی ثقافت خطرے میں ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اگر کان کنی کا دائرہ کار مزید بڑھایا گیا تو “ہماری بستیاں نقشے سے مٹ جائیں گی۔”
سول سوسائٹی کا مؤقف
الائنس فار کلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی جو فوسل فیول کے خاتمے اور قابل تجدید توانائی کی وکالت کرنے والا اتحاد ہے نے اس توسیعی منصوبے کو ماحولیاتی، سماجی اور معاشی انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔
اتحاد کا کہنا ہے کہ یہ تجویز نہ صرف آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مقامی کمیونٹیز اور صارفین پر غیرمنصفانہ بوجھ ڈالے گی۔ یہ پاکستان کے پیرس معاہدے جیسے بین الاقوامی وعدوں سے بھی متصادم ہے۔
مطالبات
دونوں بیانات میں حکومت، سندھ کول اینڈ انرجی بورڈ، اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کان کنی کی توسیع کو فوری طور پر روکا جائے جب تک کہ ایک شفاف اور عوامی مشاورت پر مبنی عمل نہ اپنایا جائے۔
متاثرہ دیہات کے لیے بحالی اور معاوضے کی واضح پالیسی بنائی جائے۔
فیصلہ سازی میں خواتین، کسانوں اور پسماندہ طبقات کو باقاعدہ شامل کیا جائے۔
پس منظر
تھر کول فیلڈ بلاک-ٹو میں 2012 سے کوئلے کی کان کنی جاری ہے، جہاں سندھ حکومت اور اینگرو کمپنی کے اشتراک سے کوئلے پر مبنی بجلی گھر بھی قائم ہیں۔ تاہم، اس منصوبے کو مقامی سطح پر آبی قلت، ماحولیات کی تباہی اور کمیونٹیز کی جبری نقل مکانی جیسے مسائل کی بنا پر طویل عرصے سے تنقید کا سامنا ہے۔