مہرا لنساء،حفضہ گلزار، خنصاء ناز، امبرین، خنصا ء طارق
آج ہم نے اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقت میں یہ زمین ہمارے لیے ناقابل رہائش ہو سکتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے،لیکن پاکستان اور کراچی جیسے شہروں پر اس کے اثرات تیزی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ بدلتے موسم،غیر معمولی بارشیں، شدید گرمی اور سمندر کی سظح میں اضافہ ان تبدیلیوں کی چند واضع علامات ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی وضاحت
موسمیاتی تبدیلی زمین کے طویل مدتی موسمی نظام میں تبدیلی کو کہتے ہیں جو انسانی سرگرمیوں جیسے فوسل فیول کا استمال،جنگلات کی کٹائی اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔جب گرین ہاؤس گیسیز فضا میں جمع ہوتی ہیں تو وہ زمین کی حرارت کو واپس جانے سے روکتی ہیں جس کے نتیجے میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا تاریخی اور موجودہ پس منظر
اگر چہ زمین کی آب و ہوا قدرتی طور پر بھی بدلتی رہتی ہے لیکن صنعتی انقلاب کے بعد انسانی سرگرمیوں نے اس تبدیلی کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔1960میں شروع ہونے والا صنعتی انقلاب جس میں کوئلے اور تیل کا کثرت سے استعمال ہوازمین کے قدرتی توازن کو بگاڑنے لگا۔1992میں ہونے والا ارتھ سمٹ اور 2015میں ہونے والا پیرس معاہدہ اس عالمی مسئلے کے خلاف عملی اقدامات کی شرعات تھے۔
کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہے،موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرحمتاثر ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں 2024-25کراچی کو شدید گرمی کی لہروں، غیر متوقع بارشوں، سیلاب اور پانی کی قلت جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ گرمی کی شدت میں اضافہ اتنا ہوا کہ درجہ حرارت 45ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیاجس سے انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہو ئے۔اسی طرح مون سون کی غیر معمولی بارشوں نے اربن فلڈنگنگ کو جنم دیاجس کے نتیجے میں ناظم آباد، گلشن، لیاری، نارتھ کراچی اور ملیرجیسے علاقے پانی میں ڈوب گئے۔
کراچی کے ساحلی علاقوں کو سمندری سظح بلند ہونے کے خطرات لاحق ہیں جس سے ڈیفیس، کلفٹن اور کورنگی کریک جیسے علاقے آیندہ چند دہائیوں میں زیر آب آ سکتے ہیں۔ فضائی آلودگی بھی شدید مسئلہ بن چکی ہے اور شہر کا ائرکوالٹی انڈیکس اکثر 150سے تجاوز کر جاتا ہے جو صحت کے لیے خطرناک ہے۔پانی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے، زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مطابق کراچی کو بارہ سو ملین گیلن پانی کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ صرف ساڑھے پانچ سو سے چھ سوملین گیلن پانی فراہم ہو پاتا ہے اور شہریوں کو واٹرٹینکر پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجوہات
فوسل فیول جیسے کوئلہ، تیل اور گیس کا ستمال، فیکٹریوں سے خارج ہونے والی گیسیں،گاڑیوں کا دھواں، خاص طور پر پرانی اوردھواں چھوڑنے والی بسیں اور ویگن، درختوں کی بے دریغ کٹائی خاص طور پر نئے ترقیاتی منصوبوں میں، پانی کا غیر دانشمندانہ استمال اور زراعت میں کیمیکل اور کھادوں کا استمال وغیرہ۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ جس سے ہیٹ اسٹروک اور پانی کی کمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، بارشوں کا نظام غیر متوقع ہو جانا جس سے نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، سیلاب اور اربن فلڈنگ جس سے سڑکوں، دکانوں اور گھروں کا نقصان پہونچتا ہے، پانی کی قلت اور صاف پانی تک محدود رسائی خاص طور پر کچی آبادیوں میں، انسانی صحت پر منفی اثرات جیسے الرجی،جلدی اور سانس کی بیماریاں، سمندری علاقوں میں کٹاؤ، لینڈ لاس اور آبیحیات کو نقصان۔
کراچی میں مخصوص صورتحال
2022کی بارشوں کے دوران شہر کے کئی علاقے زیر آب آ گئے تھے۔ ہیٹ ویو کی وجہ سے 2015میں بارہ سو سے زائد اموات ہوئیں،۔ کچرا کنڈیوں اور صنعتی علاقوں سے نکلنے والے دھوئیں فضا کو آلودہ کر رہے ہیں خاص طور پر کورنگی اور سائٹ انڈسٹریل ایریاکے۔
عوامی رائے
کراچی کے عوام کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال شدید گرمی، پانی کی کمی اور شہری سیلاب سے دوچار ہوتے ہیں۔ شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نکاسی آب کا نظام ناکارہ ہو چکا ہے اور ہر بارش کے بعد گلیاں ندی نالے کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ان کی رائے میں حکومت اور مقامی اداروں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں تا کہ شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔
ماہرین کی رائے
ماحولیاتی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر پروین امبرین جو ایک ماحولیاتی سائنس دان ہیں کہتی ہیں کہ ”کراچی میں درختوں کی کمی، گاڑیوں کا دھواں اور پانی کا ناقص انتظام موسمیای تبدیلی کو تیز کر رہے ہیں“ ان کے مطابق پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متا ثر ہوں گے حالانکہ اس کی وجہ بننے میں اس کا حصہ بہت کم ہے۔
عملی اقدامات
ماحول دوست طرز زندگی اپنائی جائے جیسے سائیکلنگ اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استمال، درخت لگانے کی مہمات خاص طور پر سڑکوں اور پارکوں میں، پلاسٹک کے استمال میں کمی اور ری سائیکلنگ کا فروغ، توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی،تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی تعلیم کا فروغ اور آگاہی مہمات، حکومتی سطح پر قوانین اور پالیسیوں کا نفاذجیسے گرین بلڈنگ کوڈزاور صنعتی فضلے کے اخراج پر پا بندیاں۔
موسمیاتی تبددیلی ایک سائنسی حقیقت ہے جو انسانی زندگی، معیشت اور ماحول کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی طرز زندگی پر غور کرنا ہو گا اور مشترکہ کوششوں کے زریعے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کراچی جیسے میگا سٹی کو مستقبل کے ماحولیاتی خطرات سے بچانے کے لیے فوری اور دیر پا حکمتعملی بنانا ناگزیر ہے۔ اگر آج ہم نے اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقت میں یہ زمین ہمارے لیے ناقابل رہائش ہو سکتی ہے۔