فروزاں فروزاں کے مضامین

کیابجٹ 2025موسمیاتی بحران کا ادراک رکھتا ہے؟؟

ایڈیٹر فروزاں – محمود عالم خالد


وقت کا تقاضہ ہے کہ بجٹ کی تشکیل میں موسمیاتی انصاف اور سبز معیشت کو بنیادی ستون بنایا جائے گا، مگر صورتحال ہمیشہ کی طرح افسوسناک ہے

گزشتہ ایک دہائی میں دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے، اور ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے اثرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر کہیں زیادہ نمایاں ہیں ۔ ہیٹ ویوز، گلیشیئرز کا پگھلنا، بارشوں کی بے ۔ ترتیبی، زرخیز زمینوں کا تیزی سے زوال، اور پانی کی شدید قلت وہ چیلنجز ہیں جنہوں نے پاکستان کے ماحولیاتی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔

ان تمام بحرانوں کے باوجود پاکستان کے مالی سال 2025کے بجٹ کا جب باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہماری ریاستی ترجیحات میں ماحولیات کا مقام انتہائی نچلے درجے پر ہے ۔

وفاقی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی کا حصہ

پاکستان کے وفاقی بجٹ 2025میں وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے تقریباً 15.87 ارب روپے مختص کیے ہیں ۔ اس میں سے 15.62 ارب روپے خاص طور پر ”گرین پاکستان” پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ رقم پچھلے سال کی نسبت بہتر ضرور ہے لیکن یہ اضافہ زمینی حقائق کے اعتبار سے ناکافی اور علامتی نوعیت کا ہے۔

اس رقم میں کلائمٹ فنانسنگ، تحقیقی منصوبے، مقامی سطح پر موسمیاتی مزاحمتی اقدامات یا شہری منصوبہ بندی کے لیے کوئی الگ مختص رقم شامل نہیں۔

وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں ماحولیاتی حساس منصوبوں کا تناسب 15.3 فیصد تک محدود ہے، جبکہ مجموعی بجٹ میں ایسے اخراجات صرف 7.7 فیصد ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بجٹ میں موسمیاتی و ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کو ثانوی درجہ دیا گیا ہے، حالانکہ پاکستان عالمی سطح پر موسمیاتی بحران کاسب سے بڑا شکار ہے۔

صوبائی حکومتوں کی ترجیحات

صوبائی بجٹ میں ماحولیات کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔ خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ماحولیات، جنگلات، پانی یا زراعت جیسے شعبوں کے لیے اگرچہ فنڈز مختص ہیں، لیکن ان میں زیادہ تر منصوبے روایتی نوعیت کے ہیں جن کا براہ راست تعلق موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے سے نہیں بنتا۔مثلاً پنجاب کے بجٹ میں صحت، تعلیم اور مواصلاتی ترقی کو ترجیح دی گئی ہے، جبکہ ماحولیاتی منصوبوں کو علیحدہ فنڈنگ کے طور پر واضح نہیں کیا گیا۔ سندھ میں اگرچہ مینگرووز کے تحفظ اور واٹر مینجمنٹ جیسے اقدامات کی مثالیں موجود ہیں، لیکن ان کی موجودہ بجٹ میں مالیاتی وابستگی واضح نہیں۔ خیبرپختونخوا میں جنگلات کی بحالی جیسے اقدامات کا ذکر ملتا ہے، تاہم وہ بھی محدود وسائل کے ساتھ ہیں۔

موسمیاتی بحران بمقابلہ بجٹ ترجیحات

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار ہیں، باوجود اس کے کہ عالمی سطح پر ہمارے کاربن اخراج کا حصہ نہایت کم ہے۔ اس کے باوجود، بجٹ 2025میں موسمیاتی موافقت، قدرتی آفات سے تحفظ، یا متبادل توانائی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی کمی واضح ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کو اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا کم از کم 1 سے 2 فیصد موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مختص کرنا چاہیے، جبکہ موجودہ بجٹ میں یہ تناسب 0.3 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس سے حکومتی سنجیدگی پر سوال اٹھتے ہیں۔

بین الاقوامی وعدے اور داخلی غفلت

پاکستان نے کوپ 26 میں یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ 2030 تک کاربن اخراج میں 50 فیصد کمی کرے گا، بشرطیکہ اسے بین الاقوامی مالی تعاون حاصل ہو۔ تاہم اندرون ملک اس عزم کی عملی صورت گری کہیں نظر نہیں آتی۔ نہ تو کاربن ایمیشن کی مانیٹرنگ کا کوئی موثر نظام موجود ہے اور نہ ہی کاربن پرائس یا گرین انوسمنٹ کے لیے کسی پالیسی کا اطلاق ہوا ہے۔نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی (2021) اور نیشنل ایڈاپٹیشن پلان جیسے اہم دستاویزات عملی اقدامات اور بجٹ ترجیحات میں غائب نظر آتے ہیں، جو ایک تشویشناک صورت حال ہے۔

یہ بھی پڑھیں

کنسرن سٹیزن الائنس کے نمائندوں کا دورہ انڈس ڈیلٹا

تھر: کوئلے کی کان کنی کی توسیع,مقامی کمیونٹیز اور سول سوسائٹی کا شدید ردعمل

 

سفارشات اور ممکنہ راہِ عمل

بجٹ کی ترجیحات میں اصلاح: ماحولیاتی موافقت، ریزیلینس، اور مٹیگیشن کو بجٹ میں الگ سے نمایاں ترجیح دی جائے۔

موسمیاتی فنڈ کا قیام: ایک مستقل ”کلائمٹ ایکشن فنڈ” قائم کر کے اس میں شفافیت کے ساتھ فنڈنگ کی جائے۔

سبز معیشت کی طرف پیش قدمی: گرین انرجی، الیکٹرک ٹرانسپورٹ، اربن فورسٹری اور ویسٹ مینجمنٹ جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔

عالمی امداد کا مؤثر استعمال: عالمی ماحولیاتی فنڈز سے استفادہ حاصل کر کے ان کو شفاف منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔

شفافیت اور نگرانی: ایک آزاد اور خودمختار مانیٹرنگ سسٹم کے ذریعے ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی کی جائے۔

مالی سال 2025کا بجٹ پاکستان کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کو ترجیح دے، مگر افسوس کہ یہ موقع ضائع کر دیا گیا ۔

اگر مستقبل میں بھی ماحولیات کو محض نمائشی شعبہ سمجھا جاتا رہا تو ہم نہ صرف عالمی سطح پر اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو ایک خطرناک ماحولیاتی ورثے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ بجٹ کی تشکیل میں موسمیاتی انصاف اور سبز معیشت کو بنیادی ستون بنایا جائے۔

Leave a Comment