تحریر: مظہراقبال مظہر (برطانیہ)
گزشتہ سال دنیا کے سمندروں میں درجہ حرارت نے ہر روز نئے ریکارڈ قائم کیے، جو ایک تشویشناک تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں
جب آپ سمندر کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ کو اس کا رنگ نیلا یا فیروزی نظر آتا ہے۔ یہ نیلا رنگ دراصل سورج کی روشنی کے پانی کے ساتھ تعامل کی وجہ سے بنتا ہے۔ سورج کی سفید روشنی مختلف رنگوں کا مجموعہ ہوتی ہے، جن میں سرخ، سبز، نیلا اور بنفشی شامل ہیں۔ جب یہ روشنی پانی میں داخل ہوتی ہے تو پانی کے مالیکیول سرخ رنگ کی روشنی کو زیادہ جذب کرتے ہیں، جبکہ نیلے رنگ کی روشنی زیادہ بکھرتی ہے، جس کی وجہ سے سمندر ہمیں نیلا دکھائی دیتا ہے۔
تاہم، حالیہ تحقیقات نے ایک نیا انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے سمندروں کا رنگ نیلا سے سبز میں تبدیل ہو رہا ہے، اور اس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ برطانیہ کے نیشنل اوشینوگرافی سنٹر کے مطابق، گزشتہ دو دہائیوں میں سمندر کی سطح کے 56 فیصد حصے میں رنگ کی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی ہماری آنکھوں سے نظر نہیں آتی، لیکن سیٹلائٹ کی مدد سے اس کا تجزیہ ممکن ہو چکا ہے۔
اپریل 2024 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ سمندروں کی رنگت میں یہ تبدیلیاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہیں، جو سمندری درجہ حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال دنیا کے سمندروں میں درجہ حرارت کا ہر دن نیا ریکارڈ ٹوٹا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ سمندروں کا درجہ حرارت زمین کی 71 فیصد سطح پر اثرانداز ہو رہا ہے۔
سمندری پانی کی رنگت میں تبدیلی کی وجہ مختلف عوامل ہو سکتے ہیں، جن میں فائٹوپلانکٹن کی اقسام اور کثرت میں تبدیلی شامل ہے۔ یہ مائکروسکوپک پودے سمندری ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فائٹوپلانکٹن کی بڑھتی ہوئی تعداد یا نئے رنگت والے اقسام، جیسے سبز یا بھورے رنگ کے فائٹوپلانکٹن، سمندر کے رنگ کو متاثر کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، سمندری ماحول میں آنے والی تبدیلیاں صرف سمندروں تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر آبی ذخائر جیسے دریا اور نہریں بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، الاسکا میں دریا زنگ آلود نارنجی رنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں، اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ آرکٹک زمین کا سب سے تیزی سے گرم ہونے والا خطہ ہے، جہاں برف کی پگھلتی ہوئی سطح سے معدنیات بہ کر آبی گزرگاہوں میں جا رہی ہیں۔
یہ معدنیات جب آکسیجن کے ساتھ ملتی ہیں تو پانی کی تیزابیت بڑھا دیتی ہیں، اور دھاتی عناصر جیسے زنک، کاپر، کیڈیمیم اور آئرن پانی میں تحلیل ہو کر زہر آلود ہو جاتے ہیں۔ اس عمل سے پانی کا رنگ تبدیل ہوتا ہے اور دریا زنگ آلود ہو جاتے ہیں، جیسے کہ 2018 میں شمالی الاسکا کے بروکس رینج میں دیکھنے کو ملا، جہاں دریا ایسے لگتے تھے جیسے ہلدی کی ملاوٹ والے دودھ کی نہریں ہوں۔
اس تبدیلی کا سمندری حیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے، کیونکہ سمندری پانی کا رنگ بدلنا ماحولیاتی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کا اشارہ ہے۔ حالانکہ رنگ میں تبدیلی کے پیچھے کی درست وجوہات ابھی تحقیقات کے مرحلے میں ہیں، لیکن یہ تبدیلی موسمیاتی اثرات، انسانی سرگرمیوں اور قدرتی عوامل کا مجموعہ ہو سکتی ہے۔
اس تناظر میں سمندروں کے بدلتے رنگ اور آبی ذخائر کی حالت کی مسلسل تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس کی مزید وضاحت ہو سکے اور ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات کیے جا سکیں۔