تحریر: مائرہ ممتاز – محقق، پلاسٹکس، کلائمیٹ ایکشن سینٹر
ہم اپنے بچوں کے لیے کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی چاہتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شہر میں زندہ رہیں جہاں ہر سانس زہر ہو؟
لاہور کی فضا زہر بن چکی ہے۔ یہ جملہ اب صرف خبروں کی سرخی نہیں، بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جو ہر سانس کے ساتھ ہمارے اندر اترتی جا رہی ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے صبح کے وقت لاہور پر ایک دھندلی چادر تنی ہوتی ہے، جو سورج کی روشنی کو بھی چیلنج کرتی ہے۔ ہوا میں جلن اور آنکھوں میں پانی کی شکایت عام ہو چکی ہے، اور شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں کسی کو سانس کی بیماری نہ ہو۔ لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم سب اس صورتحال کے عادی ہو گئے ہیں، جیسے یہ ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہو۔
ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے وہ اعداد و شمار جو کبھی صرف خبروں کی زینت بنتے تھے، اب ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ لاہور میں حالیہ دنوں میں اے کیو آئی نے 1000 کی خطرناک حد پار کر لی، اور پی ایم 2.5 کی سطح 632 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر تک پہنچ گئی—یہ ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ حد سے 40 گنا زیادہ ہے۔ اس کے اثرات صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ وہ اذیت ہے جو ہر سانس کے ساتھ جسم میں سرایت کرتی ہے۔ بچے اسکول جانے سے پہلے ماسک پہنتے ہیں، بزرگوں کو باہر جانے سے منع کیا جاتا ہے، اور اسپتالوں میں مریضوں کی قطاریں طویل ہو رہی ہیں۔
یہ مسئلہ محض ایک موسمی تبدیلی نہیں، بلکہ سالہا سال کی حکومتی غفلت اور عوام کی بے بسی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے ہمیشہ فصلوں کی باقیات جلانے کو مسئلے کی جڑ قرار دیا، یہ دعویٰ کیا کہ یہ زہر بھارت سے آ رہا ہے، لیکن کبھی اپنے ارد گرد نہیں دیکھا کہ ہماری گاڑیوں کا دھواں، صنعتوں کی چمنیاں، اور کچرا جلانے کی روایت نے ہماری فضاء کو کس قدر آلودہ کر دیا ہے۔
فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات جان لیوا ہیں۔ سانس کی بیماریوں سے لے کر دل کے امراض، فالج اور کینسر تک، ہر بیماری کی جڑ یہ آلودہ ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے اپنی فضائی آلودگی کو کنٹرول نہ کیا تو ایک عام پاکستانی کی زندگی کے 4.6 سال کم ہو سکتے ہیں۔ ہر سال ہم 100,000 سے زیادہ جانیں فضائی آلودگی کے ہاتھوں گنوا دیتے ہیں، لیکن یہ تعداد حکومتی بے حسی کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارا مسئلہ کیوں حل نہیں ہو رہا؟ شاید اس لیے کہ ہم نے خود کو اس زہر کا عادی بنا لیا ہے، یا شاید اس لیے کہ ہم نے امید چھوڑ دی ہے۔ لیکن کیا واقعی ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں؟ کیا ہمارے بچے اسی زہر آلود فضا میں سانس لیں گے؟ کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی بے بسی کا شکار رہیں گی؟ یہ سوالات ہر اس شہری کو خود سے پوچھنے چاہییں جو صبح اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھتا ہے اور سموگ کی دبیز تہہ دیکھ کر مایوس ہو جاتا ہے۔
ہم اکثر بیجنگ کی مثال دیتے ہیں، جو کبھی دنیا کا سب سے آلودہ شہر تھا، لیکن آج وہاں کی ہوا صاف ہو چکی ہے۔ 2013 سے 2023 کے درمیان بیجنگ نے اپنی فضائی آلودگی میں 64 فیصد کمی کی۔ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا بلکہ سخت فیصلوں اور ٹھوس اقدامات کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے پرانی گاڑیاں سڑکوں سے ہٹا دیں، پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا، اور کوئلے کے پلانٹس بند کر دیے۔ ہمیں بھی ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں جدید مانیٹرنگ سسٹم نصب کرنے ہوں گے تاکہ فضائی آلودگی کی صحیح وجوہات معلوم ہو سکیں۔ پرانی گاڑیوں کو ہٹایا جائے، الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور توانائی کے قابل تجدید ذرائع اپنائے جائیں۔ یہ سب اقدامات آسان نہیں ہیں، لیکن اگر بیجنگ ایسا کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟
یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں، ہم سب کا ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔ کچرا کھلے عام جلانے سے گریز کریں، گاڑیوں کا کم استعمال کریں، اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ عملی اقدامات کرے۔ یہ وقت صرف باتوں کا نہیں، بلکہ عمل کا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لیے کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی چاہتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شہر میں زندہ رہیں جہاں ہر سانس زہر ہو؟
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم صرف دیکھتے رہیں گے یا اپنی فضا کو صاف کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو کل شاید بہت دیر ہو جائے۔ ہر سانس جو ہم آج لیتے ہیں، وہ ہماری زندگی کے آخری دن کو قریب تر لا رہی ہے۔ یہ وقت ہے جاگنے کا، قدم اٹھانے کا، اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا۔