ڈاکٹر قمر الزمان چوہدری
پاکستان کی قومی ماحولیاتی تبدیلی پالیسی کے مرکزی مصنف اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک میں ماحولیاتی تبدیلی کے ماہر ڈاکٹر قمر الزمان چوہدری نے کاپ 29 کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک نے 2035 تک سالانہ 300 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس رقم میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن یہ رقم 1.3 ٹریلین ڈالر سے کافی کم ہے، جس کا مطالبہ غریب اور ترقی پذیر ممالک نے کیا تھا۔ اس حوالے سے کئی ممالک نے شدید تنقید کی ہے۔ مزید یہ کہ ایک دہائی تک مذاکرات کے بعد کاپ 29 نے پیرس معاہدے کے آرٹیکل 6 کے تحت کاربن کریڈٹ کی تجارت کے لیے فریم ورک کی منظوری دی ہے۔ یہ طریقہ کار کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے سرمایہ کاری کو آسان بنائے گا، تاہم کاربن کریڈٹ کی تجارت کے معیار اور نگرانی کے بارے میں مندوبین کے خدشات ابھی تک برقرار ہیں۔ ڈاکٹر قمر الزمان چوہدری کا کہنا تھا کہ کارکنوں اور برادریوں کی حفاظت کے حوالے سے بھی کچھ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن اس حوالے سے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اہم معاہدے ابھی تک باقی ہیں۔ علاوہ ازیں، حکومتوں کو فروری 2025 تک اپنے توسیعی قومی منصوبے (این ڈی سی) جمع کرانے ہوں گے، جب کہ بعض ممالک نے فوسل فیول کو ختم کرنے اور قابل تجدید توانائی اپنانے کے منصوبے پیش کر دیے ہیں۔
ڈاکٹر غلام رسول
پاکستان کے معروف ماحولیاتی سائنسدان اور محکمہ موسمیات پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر غلام رسول نے کاپ 29 کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس سے بہت زیادہ توقعات تھیں کہ موسمیاتی مالیات کے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھرو ہو گا، لیکن امریکہ میں ہونے والے انتخابات نے اس پر اثر ڈالا اور کانفرنس کوئی بڑا نتیجہ نہیں دے سکی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر، 1978/79 میں کیوٹو پروٹوکول پر بات ہوئی تھی مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، پھر 2015 میں پیرس معاہدہ ہوا اور اس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک یا لیڈنگ ممالک جیسے چین، بھارت اور برازیل کے ساتھ ترقی پذیر ممالک ہر سال 100 ارب ڈالر دیں گے، لیکن کسی نے اس وعدے کو سنجیدہ نہیں لیا اور نہ ہی ان وعدوں کو پورا کیا۔ اب کاپ میں ایک دن کی توسیع کر کے 300 ارب ڈالر جمع کرنے کی بات کی گئی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی اس پر سنجیدگی سے نہیں لے گا کیونکہ ماضی میں کیے جانے والے وعدوں پر بھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ غریب ممالک اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک اس وعدے کو سنجیدگی سے لیں گے تو یہ دیوانے کا خواب ہی ہوگا۔ ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ پاکستان کو اپنی طرف سے جو ردھم پکڑی ہے، اسے برقرار رکھنا ضروری ہے اور اس میں اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ ہم ایسی قوم ہیں جو کیپسٹی بلڈنگ میں بھی کمزور ہیں اور ہمارے ادارہ جاتی صلاحیت بہت کم ہے۔ اگر ہمیں بہت زیادہ پیسے مل بھی جائیں تو ہم ان کو فوری طور پر خرچ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے فنڈنگ کے دیگر ذرائع جیسے گلوبل اڈاپٹیشن فنڈ، گرین کلائمیٹ فنڈ اور جیف کی فنڈنگ موجود ہیں۔ اگر کاپ کی فنڈنگ سے پاکستان اپنا حصہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اسے بہت سارے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر پرویز امیر
پاکستان کے معروف ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر پرویز امیر نے فروزاں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کاپ 29 میں پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اور غریب ممالک کا موقف تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی مالیات میں اضافہ کیا جائے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکا جائے اور کاربن کے اخراج میں کمی لائی جائے۔ کاپ کے یہ تین بڑے مقاصد تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان موسمیاتی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے اور اسے ابھی تک پچھلے پیسے بھی ادا نہیں کیے گئے ہیں، موجودہ فنانسنگ جو 100 ارب ڈالر تھی، پاکستان کو اس میں سے بھی کچھ نہیں مل رہا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی ترقی پذیر اور غریب اقوام اس سے قطعی خوش نہیں ہیں کیونکہ ان کی ڈیمانڈ 7 ٹریلین ڈالر تھی، جبکہ 300 ارب ڈالر کہیں سے بھی کافی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ممالک کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت اور چین کو پیسے نہیں ملنے چاہیے کیونکہ یہ مڈل انکم کنٹری ہیں، حالانکہ اگر ہم صرف اپنے سیلابوں کے نقصانات کا ہی تخمینہ لگائیں تو وہ 40/50 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ ڈاکٹر پرویز نے کہا کہ آئی ایم ایف پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ وہ اپنی جی ڈی پی کا 5 فیصد موسمیاتی تبدیلی پر خرچ کرے، جو کہ ناممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان اپنے بل بوتے پر واضح منصوبہ بندی کے ساتھ جائے اور اعلی سطح پر رابطے کرتے ہوئے اپنے لیے فنڈنگ حاصل کرے، لیکن ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں ہے کہ ہم اس سطح کے پروپوزلز بنا سکیں، بنگلہ دیش اور دیگر کئی ممالک یہ فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔
ڈاکٹر اعجاز
پاکستان کے معروف ماہر ماحولیات اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اعجاز کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اس کانفرنس کا بنیادی فوکس مالیات تھا، جس پر ہر مرتبہ بات کو ٹال دیا جاتا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک اس پر زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن پچھلی دو تین کانفرنسوں سے ترقی یافتہ ممالک نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کیا کہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کے موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے امداد پر بات ہونی چاہیے۔ اس لیے کاپ 29 میں موسمیاتی مالیات میں تین گنا اضافہ کیا گیا ہے، جو پہلے 100 ارب ڈالر تھی اور 300 ارب ڈالر کے ہدف کو 2035 تک حاصل کرنے کا کہا گیا ہے، لیکن یہ بہت مشکل ہدف ہے کیونکہ بہت سے ممالک اس رقم پر جلدی تیار نہیں ہوں گے۔ ڈاکٹر اعجاز نے کہا کہ تاریخی طور پر وعدے تو بہت کیے جاتے ہیں، لیکن انہیں پورا نہیں کیا جاتا۔ تاہم اب چونکہ ترقی یافتہ ممالک بھی موسمیاتی تبدیلی کی زد میں آ رہے ہیں، اس لیے شاید اس مرتبہ کچھ عملی اقدامات نظر آئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ متبادل توانائی کے ذرائع پر بھی بات کی گئی کہ فوسل فیول کے استعمال کو کس طرح کم کیا جائے، لیکن اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس ٹیکنالوجی موجود ہے، لیکن ترقی پذیر اور غریب ممالک کے پاس نہ ٹیکنالوجی ہے نہ وسائل موجود ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان ممالک کو ٹیکنالوجی اور وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ، کاربن کریڈٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کا رپورٹنگ میکنزم شفاف ہونا چاہیے کیونکہ پیرس معاہدے کا آرٹیکل 6.4 اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کاربن کریڈٹ کو کھلی منڈی میں نجی یا حکومتی سطح پر سامنے لایا جائے۔ اس کے علاوہ، این ڈی سی کے حوالے سے بھی میکنزم بنایا گیا ہے، اور غریب ممالک کے لیے اڈاپٹیشن پلان کی ترقی پر زور دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز نے مزید کہا کہ اس دفعہ سول سوسائٹی، جینڈر، یوتھ اور بچوں کے کردار کے حوالے سے بھی بحث و مباحثہ ہوا۔ اس مرتبہ جو حکومتی وفد کاپ کی کانفرنس میں گیا تھا، وہ کافی سرگرم رہا، اور پاکستان کا کردار اس کانفرنس میں بہت مثبت رہا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اس حوالے سے مختلف ممالک سے رابطہ رکھے، جیسے اسموگ کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کا ہے، تو اس کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
یاسر حسین دریا
ماحولیاتی ماہر اور کلائمیٹ ایڈاپٹیشن سینٹر کے ڈائریکٹر یاسر حسین دریا نے اس حوالے سے فروزاں کو بتایا کہ کاپ 29 کا فوکس مالیات تھا۔ انہوں نے کہا کہ دوبئی میں ہونے والی کاپ 28 کے صدر ایک آئل کمپنی کے بھی صدر تھے اور کاپ 29 جو آذربائیجان میں منعقد ہوئی، وہ بھی تیل پیدا کرنے والا ملک ہے، اور اس کانفرنس کو وہاں کے صدر اور آئل کمپنیوں کے ذمہ داران ہی آرگنائز کر رہے تھے اور کاپ کے دوران ہی فیول کی آفیشل ڈیلیں کرتے رہے۔ یاسر حسین کا کہنا تھا کہ وہاں کہا گیا کہ آئل اور گیس خدا کی دی ہوئی نعمت ہے، اس پر ایک تبصرہ آیا کہ اگر یہ تحفہ ہے تو اسے سنبھال کر رکھو، جلا کیوں رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ پچھلے 200 برسوں میں کچھ ملکوں نے تیل، گیس اور کوئلے کے ذریعے کاربن کا بے تحاشہ اخراج کیا ہے جو گلوبل وارمنگ کا سبب بنا۔ اس صورتحال میں پاکستان جیسے ممالک جو پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہیں، موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے ان ترقی یافتہ قوموں سے جو گلوبل وارمنگ کا سبب بنی ہیں، معاوضہ کی شکل میں رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یاسر حسین نے کہا کہ اس مرتبہ کاپ 29 میں 300 ارب ڈالر کی پیشکش کی گئی ہے جو کہیں سے بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ کچھ افریقی ممالک کا کہنا تھا کہ 500 ارب ڈالر بھی چل سکتے ہیں، لیکن 300 ارب کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ یاسر حسین کا کہنا تھا کہ کاپ 29 کی پوزیشن اس حوالے سے کافی خراب رہی کیونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ آئل اور گیس خدا کی نعمت ہے۔