شاہ خالد شاہ جی
میں جو امیدیں اور توقعات لے کر کانفرنس میں گئی تھی اس حوالے سے مجھے خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا
ہرسال موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کو درپیش چیلینجز پر بحث ہوتی ہے اور ٖقابل عمل فیصلے کیے جاتے ہیں۔ رواں سال بھی نومبر کے مہینے میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کانفرنس آف پارٹیز)کوپ 29) کانفرنس منعقد ہوئی جو 11نومبر سے22 نومبر تک جاری رہی۔ ہر سال اس کانفرنس کا ایک تھیم ہوتا ہے جس پر پورے سال توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ رواں سال کوپ 29 کا تھیم تھا ”سب کے لیے رہنے کے قابل سیارے میں سرمایہ کاری”۔
کوپ 29 میں دنیا کے 200ممالک کے سربراہان یا حکومتی نمائندوں و وفود، قومی اورعالمی غیرسرکاری تنظیموں،صنعتی اداروں کے نمائندوں، ماحولیات کے ماہرین، کلائمیٹ چینج ایکٹیوسٹس اور اینوائرمینٹل صحافیوں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ایک وفدکے ہمراہ شرکت کی اورکانفرنس سے خطاب کیا اس کانفرنس کے شرکاء اور ماہرین موسمیاتی تبدیلی نے اپنے خیالات پیشکئے کہ کس طرح انسانی زندگی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہو رہی ہے اوراس کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے۔
کوپ 29 کی اس کانفرنس میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر کام کرنے والے بین القوامی ادارے باندے شمس پاکستان کے پروگرام آفیسر اور کلائمیٹ چینج ایکٹیوسٹ کائنات سیف نے پہلی بار شرکت کی کانفرس سے واپسی پر ماہنامہ فروزاں نے کوپ 29 کے حوالے سے کائنات سیف کے ساتھ خصوصی اگفتگو کی۔سب سے پہلے ان سے کوپ سربراہی کانفرنسکے تاریخی پس منظراوراہمیت کے بارے میں معلوم کیا۔
کائنات سیف نے اس حوالے سے بتایا کہ1995 میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جب عالمی رہنماؤں نے اس بات کو محسوس کیا کہکرۂ ارض پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اقتصادیات، انسانی زندگیوں اور قدرتی ماحول پر مضر اثرات مرتب ہور ہے ہیں۔ تواس کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے جس سے ان عوامل میں کمی لائی جائے تو کانفرنس آف پارٹیز (کوپ)کا قیام عمل میں لایاگیا اسی وقت سے یہ کانفرنس ہرسال منعقد ہورہی ہے۔
انہوں نے کوپ کی اہمیت کے حوالے سے بتایا کہ یہ بہت اہم فورم ہے کیونکہ اس میں دنیا کے تمام ممالک کینمائندگی ہوتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے پوری دنیا پر مرتب ہونے والے منفی اثرات پر تفصیلی بحث کرتے ہیں اور اس کے تدارک کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہیہے۔اور جہاں پر زیادہ منفی اثرات ہوتے ہیں وہاں پر خصوصی توجہ اور پراجیکٹس شروع کیے جاتے ہیں۔
چونکہ کائنات ایک ینگ فیمل کلائمیٹ ایکٹیوسٹ ہے اس لئے ہم نے اس سے کوپ 29 میں خواتین کے شرکت اور موسمیاتی تبدیلی کے خواتین کی زندگیوں پر منفی اثرات کے حوالے سے مستقبل کی منصوبہ بندی پر بات کی۔جس کے جواب میں کائنات نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین دنیا کی نصف آبادی ہے لیکن کوپ 29 میں خواتین کے حوالے سے کوئی ٹھوس اور خاص بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان پر موسمیاتی تبدیلی کے مرتب ہونے والے منفی اثرات کے حوالے سے کوئی بڑامنصوبہ پیش کیا گیا۔
کائنات کے مطابق اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں خواتین کی زندگی موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے متاثر ہورہی ہے لیکن پاکستان میں خاص طور پر اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان میں سیلابوں، ہیٹ ویو اور دوسری قدرتی آفات سے زیادہ تعداد میں خواتین اور بچے متاثرہور ہے ہیں۔ یہاں پرخواتین کو صحت کے حوالے سے کئی پیچیدگیوں کا سامنا ہے جس میں رپروڈکٹیو ہیلتھ کے مسائل، کم عمری میں شادیاں اور ان سب مشکلات کا تانا بانا موسمیاتی تبدیلی سے ملتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کوپ 29 میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
جب کائنات سے پوجھا گیا کہ کیوں خواتین کے حوالے سے موثر بات نہیں ہوئی کیا خواتین کی موثر نمائندگی کوپ 29 میں موجود نہیں تھی؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ ” خواتین کی نمائندگی بلکل تھی یعنی بڑی تعداد میں خواتین نے کانفرنس میں شرکت کی لیکن جو اہم پینل ڈسکشن تھی اس میں خواتین کو موقع نہیں دیا گیا کہ وہ کھل کر بات کر سکیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ چند ایک خواتین کی علاوہ ان کو کوئی خاتون سٹیج پر نظر نہیں آئی سب مرد کھڑے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ خواتینکیحوالے سے کوئی موثر بات نہیں ہوسکی ”۔
اگر خواتین کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے درپیش مشکلات کے حوالے سے کوپ 29 میں بات نہیں ہوئی تو پھرکون سے موضوعات زیر بحث آئے؟ کائنات نے جواب میں کہا کہ اس نے پہلی بار کوپ کانفرنس میں شرکت کی تھی اور زیادہ تر توجہ خواتین سے وابستہ موضوعات پر مرکوز رہی لیکن جہاں تک اس کوپ 29 کی توجہ تھی وہ زیادہ تر کلائمیٹ فنانس پر مرکوز تھی اور اس پر زیادہ بحث ہوئی اس میں بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے فنڈز کے حوالے سے کوئی خاص ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور صرف وعدوں پر بات ختم ہوئی۔ ترقی پذیر ممالک اور جو ممالک موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں جس میں پاکستان بھی شامل ہے اس کے ساتھ اس مد میں امداد کرنے کی کوئی مربوط اور ٹھوس منصوبہ بندی پیش نہیں کی گئی اور نہ اس حوالے سے فنڈز کا اجراء کیا گیا بلکہ صرف وعدے کئے گئے ہیں۔
آخر میں جب کائنات سے معلوم کیا کہ کیا آپ کوپ 29 سے مطمئن نہیں ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ بلکل میں اس سے مطمئن نہیں ہوں اور میں نے جو قعات توقعات اور امیدیں کوپ 29 سے وابستہ کر رکھی تھیں اور اس میں شرکت کی تھی تو اس حوالے سے مجھے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے ترقی پذیر ممالک کی خواتین بہت زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔ اگر اتنے بڑے فورم پر بھی خواتین اور بچوں پر مرتب ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے حوالے سے موثر بات نہیں ہوتی اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی منصوبہ بندی نہیں کی جاتیتو پھر کہا ں ہوگی؟۔