مضامین

کراچی شہر کا ”ماحولیاتی ماسٹر پلان“کیوں ہونا چاہیے؟

محمد توdrainage systemحید (اربن پلانر، ریسرچر)

ان مسائل کو حل کرنے کے لیے قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں حکمت عملیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں کے انداز میں تبدیلی کراچی کے شہری سیلاب میں اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن وہ اس کی مکمل طور پر ذمہ دار نہیں ہے۔کیونکہ شہر کے انفرااسٹرکچر کی نازک صورتحال کو شامل کیے بغیر کسی طرح کا تجزیہ کرنا ناممکن ہے اور ہم نے بارہا دیکھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی پر جب بھی بادل چھاتیہیں تو کراچی جسے ‘روشنیوں کے شہر’ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ نہ صرف اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے بلکہ بارش اور سیوریج کے پانی میں بھی ڈوب جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کی منصوبہ بندی ماحولیاتی عوامل و موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔

جیسا کے’ شہری سیلاب’ اب کراچی میں رہنے والوں کے لئے ایک بہت ہی جانی پہچانی اصطلاح ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ شہر کی سڑکیں جہاں روزمرہ کی زندگی تیز رفتاری سے چلتی ہے، بارش کی وجہ سے اچانک سیلاب میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور سڑکوں اور نالوں میں فرق کرنا ممکن نہیں رہتا۔

شہر کے 70 فیصد علاقوں میں مکانات زیر آب آجاتے ہیں، اور شہر بھر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے کے ساتھ افراتفری پھیل جاتی ہے گویا شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک دن کی کہانی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے، اور شہر کو اس مرحلے تک پہنچانے کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں شہر کا نکاسی آب کا نامناسب نظام، کئی دہائیوں کی غفلت، کچرے کو ٹھکانے لگانے کے نظام میں بے قاعدگی کے ساتھ دیگربہت سے عوامل شامل ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

ایک طرف، خستہ حال انفراسٹرکچر ہے۔ دوسری جانب بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث آبی راستوں پر ہونے والی غیر قانونی تعمیرات نے شہر کو غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس افراتفری کے درمیان لوگ بدبودار پانی اور کیچڑ سے گزر کر اپنے روزمرہ کے معمولات کومکمل کرنے کی کوشش کرتیہیں۔ ان کی مایوسی میں مزید اضافہہہوتا جا رہا ہیکیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے ان کی شکایات بہرے کانوں پر پڑ رہی ہیں۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کی جنوری، فروری اور مارچ 2025 کے لیے موسمی آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق، ایل نینو سدرن آسیلیشن (ای این ڈی ایس او) جیسے موسمیاتی اشارے کا منفی مرحلہ برقرار رہنے کی توقع ہے۔ جبکہ، بحر ہند کا ڈوپول (آئی او ڈی) منفی سے قدرتی مرحلے میں منتقل ہو رہا ہے، جس کے جاری موسم کے دوران برقرار رہنے کا امکان ہے۔ لہذا، موجودہ مغربی موسمی نظام کی وجہ سے، سندھ میں معمول کے قریب بارش ہونے کی توقع ہے۔

یہ امر تشویشناک ہے، کیونکہ 2023 میں مون سون کی بارشوں اور شہری سیلاب کے باوجود، کراچی میں فروری 2024 میں موسم سرما کی بارشوں میں شہری سیلاب دیکھنے میں آیا جس کے دوران شہر کے کم از کم 20 سے 25 علاقے زیر آب آگئے جن میں ریڈ زون، ضیاء الدین احمد روڈ، شامل ہیں۔ چندریگر روڈ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، گورنر ہاؤس اور دیگر کئی علاقوں کے لوگ ساری رات دفاتر میں رہنے پر مجبور رہے جبکہ دیگر گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے رہے۔ شہر کو تقریباً پورا دن بجلی کے بریک ڈاؤن کا سامنا رہا اور حکام کو متاثرہ علاقوں اور سڑکوں کاپانی سے صاف کرنے میں دو دن لگے۔

کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جسے اس کے نکاسی آب کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو ویسٹ مینجمنٹ کی دوہری ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔ اگرچہ موسم سرما کی بارشوں اور شہری سیلاب سے شہر کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، لیکن یہ بھی نوٹ کرنا بہت ضروری ہے کہ جب مون سون کی بارشوں میں سڑکوں کے اطراف میں جو پانی جمع ہو جاتا ہے تو اس کی نکاسی کا کیا ہو گا، کیونکہ یہ شہرناکافی آب و ہوا کے لچکدار اقدامات، ناکافی شہری منصوبہ بندی، اور نکاسی آب کے پسماندہ نظاموں کا شکار رہتا ہے۔ان چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہکیا یہ شہر آنے والے وقت میں ان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا، جیسا کہ بارش کے بڑھتے ہوئے نمونے سامنے آ رہے ہیں، یا یہ سیلابی پانی اور اس کے کوڑے میں دھنستا رہے گا؟ کیا ہمارے ادارے شہر کو پائیدار ماحولیاتی ماسٹر پلان دے سکیں گے؟

شہری سیلاب کی قیمت

ہم کہہ سکتے ہیں کہ بارشوں کے ساتھ ساتھ کراچی میں تباہ کن شہری سیلاب میں دیگر عوامل بھی کردار ادا کرتے ہیں، جن میں ناکافی انفراسٹرکچر اور بکھری ہوئی شہری حکمرانی شامل ہیں۔ ایک ساحلی شہر جس میں حکمرانی کی متعدد پرتیں ہیں، شہری سیلاب کا مسئلہ نالوں پر غیر قانونی تعمیرات سے لے کر شہری کاری، کثافت، زمین کی بحالی، بگڑتا ہوا انفراسٹرکچر، سڑکوں کی ناقص انجینئرنگ، کچرے کا ناکافی انتظام، اور ادارہ جاتی نظام کی کمی کے سبب پیچیدہ بنا ہوا ہے۔ صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ بارش کے ساتھ ہی گٹر اوور فلو ہو جاتے ہیں اور گڑھے ٹھہرے ہوئے پانی کی زد میں آ جاتے ہیں جس سے مسافروں بالخصوص موٹر سائیکل سواروں کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

ہمیں سمجھنا ہو گا کہ کراچی کے شہری سیلاب میں موسمیاتی تبدیلی اور بارش کے انداز میں تبدیلی کا کردار ضرور اہم ہے، لیکن یہ عوامل اس کے مکمل طور پر ذمہ دار نہیں ہیں کہ اس میں شہر کے بنیادی ڈھانچے کی حالت بھی ایکبنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ شہر نے بڑی حد تک ‘جوگاڑ’ (عارضی حل) پر انحصار کیا ہواہے، اور اب، 2025 کے آخر تک آبادی کے 35 ملین سے تجاوز کرنے کی پیش گوئی کے ساتھ، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ حکام نیشہر میں اگست 2019، اگست 2020، ستمبر 2021 اور جولائی 2022 میں آنے والے بڑے شہری سیلاب سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔جب کہ ان سیلابوں نے شہری حکمرانی کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔

شہر کا بنیادی ڈھانچہ اور گورننس

سڑکیں ندیوں میں بدل جاتی ہیں، گھراور کاروبار ڈوب جاتے ہیں، اور ہزاروں غیر رسمی بستیوں میں محصور ہو جاتے ہیں۔ان آفات سے بہت زیادہ معاشی نقصان ہوتا ہے، جس کی ایک بڑی مثال کراچی کی نرسری فرنیچر مارکیٹ ہے، کیونکہ یہ ہر سال پانی میں ڈوب جاتی ہے، اور اس کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ کراچی کا بنیادی ڈھانچہ، جو کبھی شہر کی ترقی کی علامت تھا، اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور بنیادی طور پر ادارہ جاتی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے یہ فطرت کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کچرا نالوں میں پھینکنا

کراچی کیبرساتینالے شہر کے خستہ حال انفراسٹرکچر کی واضحمثال ہیں۔ 1990 کی دہائی سے پہلے، شہر کے برساتینالوں اور سیوریج کے نظام الگ تھے۔ تاہم، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو اینڈ ایس بی) کی نااہل انتظامیہ نے بغیر سوچے سمجھے انہیں ضم کردیا۔ یہ ناگزیر قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب شہر کی انتظامیہ اپنے بڑھتے ہوئے سالڈ ویسٹ کا انتظام کرنے میں بھی ناکام رہی۔

شہر کا زیادہ تر کچرا ان نالوں میں ڈالا جاتا تھا جوپہلے ہی اپنی نکاسی کی صلاحیت کھو چکے تھے۔ اس لیے معمولی بارش بھی کراچی کے لیے تباہی میں بدل جاتی ہے۔ نالیاں بند ہونے سے، پانی مین ہولز سے نکل کر گلیوں میں آ جاتا ہے، اس پر غیر قانونی تعمیرات یا دوسرے لفظوں میں پانی کے قدرتی راستوں پر قائم تجاوزات نالیوں کو تنگ کر دیتیہیں جس سے وہ مزید ناکارہ ہو جاتی ہیں۔نا مناسب دیکھ بھال کے نتیجے میں وہ تنگ نالے ہلکی بارش کو بھی نہیں سنبھال سکتے۔

خطرے کو کم کرنا

ان مسائل کو حل کرنے کے لیے قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں حکمت عملیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورتہے۔ سب سے پہلے، ہمیں فضلہ کو ٹھکانے لگانے کا ایک جامع نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے جو موئثر طور پر کام کرے۔ اس عمل میں کمیونٹیز اور رہائشیوں کو شامل کرنا ضروری ہوگا اس کے بغیر یہ کام نہیں ہو گاکیوں کہ اگر ایک بہتر نظام موجود ہو گا، تو یہ نہ صرف موجودہ کچرے کے بحران سے نمٹ سکے گا بلکہ مستقبل میں کچرے کو گٹروں اور نالوں دونوں میں جمع ہونے سے روکنے کے لیے پائیدار نظام کی بنیاد بن سکے گا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ کراچی میں کل 41 بڑے اور 510 چھوٹے برساتی نالے ہیں جو کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے تحت آتے ہیں، جب کہ مؤخر الذکر کا انتظام ٹاؤن میونسپل کارپوریشن کے پاس ہے۔ اگرچہ ان نالوں کو باقاعدگی سے صاف کرنا بہت ضروری ہے، لیکن یہ یقینی بنانے کے لیے ایک سال کیمنصوبہ بندی ضروری ہے تاکہ یہ تمام موسمی حالات میں فعال رہیں۔اگلا مرحلہ نالوں پر سے تجاوزات و تعمیرات کومستقل بنیادوں پرختم کرنا ہو گا۔ جدید ٹیکنالوجی جیسے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) سروے، بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور نقشہ سازی کے نظام کو اپ گریڈ کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ تاہم مضبوط سیاسی ارادں کے بغیر ان میں سے کوئی بھی اقدام ممکن نہیں۔

Leave a Comment