تحریر: حیدر خان حیدر (ضلع نگر گلگت بلتستان)
دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں خزاں میں قدرتی رنگوں کا ایسا حسین اور دلکش منظر دیکھا جا سکتا ہو
ہماری یہ جیتی جاگتی کائنات پروردگار عالم کی کھلی کتاب ہے۔ اس میں کار فرما نظام فطرت، انسان سمیت عالم حیوانات، نباتات وجمادات کی غرض تخلیق اور اس کائنات کا شہکار مخلوق حضرت انسان کے لیے خدا تعالی کی عطا کردہ گوناگوں نعمتوں پر جہاں خود رب تعالی نے غور و خوض کرنے کی ہدایت کی ہے وہاں ان فراواں نعمتوں کی عطا پر اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
سورہ رحمن میں فرمایا” اے گروہ جن و انس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے“ کا اکتیس مرتبہ تکرار اسی جانب اشارہ ہے۔خالق کائنات نے انسان کو جن بے شمار مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں گردش لیل و نہار کے نتیجے میں وجود میں آنے والے چار موسم بھی ہیں جن میں اللہ تعالی نے ایک خاص تنوع رکھا ہے اور اسی تنوع میں ہر ذی روح کی حیات کے فائدے مضمر ہیں۔ہمارا ملک پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔
پاکستان کے نہایت شمال میں واقع خطہ گلگت بلتستان جسے نہایت بلندی پر واقع ہونے کی بنا پر با م جہاں یعنی دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے،خود ایک بڑا قدرتی وسیلہ ہے، جہاں کے ندی نالے اور دریا پورے پاکستان کی سیرابی کا ذریعہ ہیں۔پانی قدرتی وسائل میں سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کا انحصار بڑی حد تک موسموں سے جڑا ہے اس لحاظ سے سال کے چاروں موسم سرما،گرما، خزاں اور بہار کا شمار بڑے قدرتی وسائل میں ہوتا ہے۔
دنیا کے بعض ممالک جیسے سعودی عرب، دبئی،کویت اور قطر میں سارا سال موسم گرم رہتا ہے لیکن پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جہاں سال کے چاروں موسموں کے تنوع (ورائٹی)کا بھرپور طور پر لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔یہاں ہر موسم اپنے ساتھ نوع انسانیت کے لیے رب تعالی کی بے شمار نعمتوں کی سوغات لے کر آتا ہے۔
ہمارے یہاں لوگ سخت سردی کی وجہ سے موسم سرما کو پسند نہیں کرتے ہیں، کیونکہ اس موسم میں برفباری کی وجہ سے لوگوں کے معمولات زندگی میں خلل واقع ہوتا ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہی برف باری رب تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے جس سے ہماری زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔ پہاڑوں پر برف باری سے گلیشیئر وجود میں آتے ہیں جو پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اگر موسم سرما نہ ہو تو برف باری کیسے ہوگی؟ اور برف باری نہ ہو تو پانی کہاں سے آئے گا؟ پانی نہ ہو تو ذی حیات کا کیا عالم ہوگا؟لہذا موسم سرما بھی خدا تعالی کا ایک بڑا عطیہ ہے۔
موسم سرما کے اختتام پر مارچ کے مہینے سے موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے۔بہار کو پھولوں کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔ اس موسم میں مردہ زمینیں سرسبز ہو جاتی ہیں۔ جب یہاں بادام،چیری،خوبانی اور آڑو کے درختوں پر قسم قسم کے پھول کھلتے ہیں تو ایک دلکش سماں وجود میں آتا ہے۔ اس موسم میں باغات اور سیرگاہوں کی رونق اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔اس موسم کا نظارہ کر نے کے لیے پاکستان کے گوشہ و کنار سے اور بیرون ملک بالخصوص جاپان سے بھی پھولوں کے شائقین گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں اور یہاں کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔بہار کے بعد موسم گرما ہمیں اپنے جلو میں رس بھرے میٹھے میوؤں کی نعمات لے کر آتا ہے۔ چیری،خوبانی، توت اور آڑو جیسے پھل موسم گرما میں ہی پکتے ہیں۔
ان پھلوں کو نہ صرف یہاں کے مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں بلکہ انہیں ملک بھر کے شہروں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ مقامی لوگ اس موسم میں توت اور خوبانی کو سکھا کر موسم سرما کے لیے بھی ذخیرہ کر لیتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں موسم گرماکے دوران آب و ہوا معتدل رہتی ہے جس کی وجہ سے اندرون ملک و بیرون ملک سے بڑی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں۔غذر، ہنزہ،نگر اور سکردو جیسے سیاحتی مقامات پر گرمیوں کے ایام گزار کر چلے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں 15 مئی سے 15 ستمبر تک موسم گرما رہتا ہے پھر موسم خزاں شروع ہوجاتا ہے۔موسم خزاں کو پت جھڑ کا موسم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس موسم کے آخر میں درختوں کے سارے پتے گر جاتے ہیں اور درخت بالکل ننگے ہو جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں اس موسم کی اپنی ایک الگ شان ہے۔ اس موسم کے شروع سے وسط تک یہاں مخصوص قسم کے پھل پکتے ہیں اور خاص قسم کی سبزیاں اور دالیں اگتی ہیں۔ انگور، ناشپاتی اور سیب اور ان پھلوں کی الگ الگ اقسام اس موسم میں درختوں سے چنے جاتے ہیں۔ اخروٹ جس کا شمار یہاں کے خشک پھلوں میں ہوتا ہے اسی موسم میں درختوں سے اٹھایا جاتا ہے۔
موسم خزاں کے پھلوں،سبزیوں اور دالوں کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ لیکن اس موسم کی خاص بات اوراق اشجار کا مختلف رنگوں میں تبدیل ہونا ہے۔گلگت بلتستان کی مخصوص آب و ہوا کی وجہ سے یہاں مخصوص قسم کے پھلدار اور غیر پھلدار درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں خوبانی،توت،اخروٹ،آڑو، انجیر، چیری،بید، بیر،سفیدے اور کئی قسم کے جھاڑی دار درختوں کے اوراق مختلف رنگوں میں بدل جاتے ہیں۔اگرچہ دنیا میں سات قدرتی رنگ مشہور ہیں لیکن موسم خزاں میں یہاں کے درختوں کے اوراق کی رنگا رنگی اور بو قلمونی شمار سے باہر ہوتی ہے۔انسان جس جانب بھی نگاہ کرتا ہے رنگوں کے باہر نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان درختوں پر پھر سے مختلف رنگوں کے پھول کھل چکے ہیں۔کچھ دنوں کے بعد درختوں پر سنہرا رنگ غالب نظر آتا ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی جگہ ایسی ہو جہاں خزاں میں قدرتی رنگوں کا ایسا حسین اور دلکش منظر دیکھا جا سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موسم بہار اور موسم گرما کی طرح موسم خزاں میں بھی سیر و سیاحت کے شائقین بہت بڑی تعداد میں پاکستان بھر سے بلکہ بیرون ملک سے بھی بام جہاں کا رخ کرتے ہیں اور قدرت کی صنعت کاریوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔جیسے جیسے موسم خزاں بام جہاں میں اپنا رنگ جماتا ہے پتوں کا رنگ زرد ہونا شروع ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کمزور پڑ کر شاخوں سے جھڑ جاتے ہیں یوں ”ہر کمال کے لیے ایک زوال ہے ”کے مصداق درخت اپنے خوبصورت پتوں سے یکسر خالی ہو جاتے ہیں۔
اب یہ اوراق اشجار کچھ دنوں کے لیے زمین کی زینت بنتے ہیں۔ یہ سنہرے پتے زمین پر ایسا منظر پیش کرتے ہیں جیسے زمین پر سنہرے رنگ کے قالین بچھا دی گئی ہو۔ لیکن یہ کیفیت بھی صرف کچھ ہی دنوں کے لیے رہتی ہے۔ پھر درختوں کے مالکان ان پتوں کو اپنی مویشیوں کی سرمائی خوراک کے لیے سمیٹ لیتے ہیں تو زمیں بھی عریاں ہوتی ہے اور درخت بھی۔
یوں با م جہاں کے یہ حسین و جمیل وادیاں ایک عرصے کے لیے ویراں اور سنسان نظر آتی ہیں۔انسان کی زندگی بھی سال کے چار موسموں سے یک گونہ مماثلت رکھتی ہے۔انسان کا بچپن اس کی زندگی کی بہار کہلاتا ہے۔ جوانی میں انسان کے جملہ حواس اور جذبات جوبن پر ہوتے ہیں اس لیے جوانی کو گرم موسم کے مانند قرار دیا جاتا ہے۔ جوانی کے بعد انسان کا ادھیڑ پنا آ جاتا ہے جس میں انسان کے حواس میں کمزوری آنا شروع ہوتی ہے اس بنا پر اس دور کو موسم خزاں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ادھیڑ پناگزرنے کے بعد انسان کا بڑھاپا شروع ہوتا ہے جس میں اس کے جذبات و احساسات اور حواس ٹھنڈ پڑ جاتے ہیں اس لیے انسان کے بڑھاپے کو سرما سے تشبیہ دی گئی ہے۔
کائنات کے نظام میں جس طرح موسموں کے تغیر و تبدل میں خدا تعالی کی آیات اور حکمتیں پوشیدہ ہیں اسی طرح حیات انسانی کے ادوار میں بھی بہت سی مصلحتیں سربستہ ہیں۔ انسان ان ادوار سے گزر کر ہی جسمانی اور روحانی کمال حاصل کر لیتا ہے۔یوں دنیا کی ہر چیز کے لیے ایک کمال ہے اور ہر کمال کے لیے ایک زوال بھی ہے۔ اسی طرح زندگی تغیر و تبدل کا نام ہے۔جمود اور ٹھہراؤ موت ہے۔