ارسا نے صوبوں کو ایک مراسلے میں مطلع کیا ہے کہ بارشوں کی کمی کے باعث دریائے سندھ میں پانی کی کمی 35 فیصد تک ہو سکتی ہے
پاکستان میں پانی کی تقسیم کے نگران وفاقی ادارے، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے ایک مراسلے کے ذریعے صوبوں کو آگاہ کیا ہے کہ بارشوں کی کمی کے سبب دریائے سندھ میں پانی کی قلت 35 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ سندھ حکومت نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس صورتحال کے باعث گندم، گنے اور باغات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پانی کی قلت اور سندھ حکومت کا موقف
وزیر آبپاشی سندھ، جام خان شورو نے کہا کہ سندھ پہلے ہی 39 فیصد پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے، اور اگر مزید کمی ہوئی تو صوبے کی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کے مطابق، پانی کی قلت گندم کی فصل اور باغات پر منفی اثر ڈالے گی۔
ارسا کا مراسلہ اور پانی کی تقسیم
ارسا نے 7 مارچ کو چاروں صوبوں کے آبپاشی محکموں کو مراسلہ ارسال کیا، جس میں اکتوبر 2024 سے مارچ 2025 کے ربیع سیزن کے بقیہ عرصے کے لیے پانی کی تقسیم سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیمز کے ذخائر اگلے چند دنوں میں ڈیڈ لیول تک پہنچ سکتے ہیں، جو کہ ایک معمولی مظہر سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، یکم اکتوبر 2024 سے 28 فروری 2025 تک پنجاب کو 20 اور سندھ کو 14 فیصد پانی کی کمی کا سامنا رہا۔ تاہم، آئندہ بارشوں سے صورتحال میں بہتری کی توقع ہے، لیکن اس سے قبل پنجاب اور سندھ کو 30 سے 35 فیصد تک پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پانی کی تقسیم پر سندھ کا اعتراض
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی کی صورت میں ارسا، واٹر اکارڈ 1991 کے بجائے تھری ٹیئر فارمولے کے تحت تقسیم کرتا ہے، جس کے تحت خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو قلت میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا۔ اس پر سندھ نے شدید احتجاج کیا ہے۔
ارسا کا موقف
ارسا کے ترجمان محمد خالد ادریس رانا کے مطابق، تھری ٹیئر فارمولہ 2018 میں نافذ کیا گیا تاکہ مختلف حالات میں پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس فارمولے کے تحت کم پانی لینے والے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو قلت میں شامل نہیں کیا جاتا، جس سے سندھ اور پنجاب پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔
سندھ کی زراعت پر ممکنہ اثرات
سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ اس وقت گندم کی فصل فیصلہ کن مرحلے میں ہے، اور اگر فوری پانی نہ ملا تو پیداوار میں شدید کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح آم کے باغات پر بھی پانی کی قلت کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان کے مطابق، سندھ میں مارچ کا مہینہ انتہائی اہم ہوتا ہے، کیونکہ اس دوران ربیع سیزن ختم ہو رہا ہوتا ہے اور اپریل میں خریف کی بوائی شروع ہوتی ہے۔ بڑھتے درجہ حرارت کے ساتھ پانی کی قلت سے دونوں فصلوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
واٹر اکارڈ 1991 اور تنازعات
پاکستان میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1991 میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے مطابق
پنجاب کا حصہ 55.94 ملین ایکڑ فٹ (48 فیصد)
سندھ کا حصہ 48.76 ملین ایکڑ فٹ (42 فیصد)
خیبرپختونخوا کا حصہ 5.78 ملین ایکڑ فٹ (5 فیصد)
بلوچستان کا حصہ 3.87 ملین ایکڑ فٹ (4 فیصد) مقرر کیا گیا تھا۔
سندھ کا مؤقف ہے کہ پنجاب زیادہ پانی لے رہا ہے، جس کی وجہ سے دریائے سندھ کے زیریں علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے۔ اس کے برعکس، پنجاب کا کہنا ہے کہ وہ اپنے طے شدہ حق کے مطابق پانی استعمال کر رہا ہے اور نئے ڈیم بنانا ضروری ہے تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جا سکے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا بھی کبھی کبھار شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ان کے حصے کا مکمل پانی فراہم نہیں کیا جا رہا۔
دریائے سندھ میں پانی کی کمی کے باعث سندھ کی زراعت اور مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے صوبوں کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کرنا ناگزیر ہے، تاکہ تمام فریقین کو ان کے حقوق کے مطابق پانی میسر آ سکے۔
(بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو)