مضامین

سوشل میڈیا: ماحولیاتی شعور اور موسمیاتی آگاہی کی نئی صفِ اول

محمد فائز

سوشل میڈیا مینیجر اور محقق، کلائمٹ ایکشن سینٹر

 

یہ صرف ایک ذریعہ نہیں، انقلاب ہے، اب صرف رابطے کا وسیلہ نہیں بلکہ تبدیلی کا ذریعہ بن چکا ہے۔

آج کی دنیا میں جہاں ماحولیاتی مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور معلومات بہت تیزی سے پھیل رہی ہے، وہاں سوشل میڈیا ایک مضبوط اور ضروری ذریعہ بن چکا ہے۔ اب یہ صرف رابطے کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ لوگوں میں شعور بیدار کرنے، مسائل اُجاگر کرنے اور حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی بن گیا ہے۔

اپریل 2025 تک دنیا بھر میں 5.31 ارب سوشل میڈیا صارفین ہیں، جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 64.7 فیصد بنتے ہیں۔ صرف پچھلے ایک سال میں 24 کروڑ 10 لاکھ نئے صارفین شامل ہوئے ہیں، یعنی ہر سیکنڈ میں 7.6 نئے صارفین۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دنیا کی توجہ اب سوشل میڈیا پر مرکوز ہے۔ روایتی میڈیا اب پیچھے رہ گیا ہے۔ اخبارات پڑھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں۔ اب لوگ لمبے لمبے مضامین پڑھنے کے بجائے فوری، مختصر اور بصری مواد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہر نیوز چینل اب سوشل میڈیا پر ہے، ہر احتجاج کی ویڈیو، ہر مسئلے کی تصویر، ہر آواز اب ایک پوسٹ یا اسٹوری میں سما گئی ہے۔

یہی وہ وجہ ہے کہ کلائمٹ ایکشن سینٹر (سی اے سی) میں سوشل میڈیا مینیجر اور محقق کی حیثیت سے، میں نے خود دیکھا ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ماحولیاتی رابطے کے لیے کس قدر طاقتور ذریعہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف ایک رجحان نہیں بلکہ ایک انقلاب ہے—ایسا انقلاب جو مقامی آوازوں کو عالمی سطح پر لا رہا ہے، اور عام لوگوں کو طاقت دے رہا ہے کہ وہ ماحول کی خاطر کھڑے ہوں۔

میں نے مختلف مہمات چلائیں جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ سوشل میڈیا کس طرح ہمارے مقامی مسائل کو عالمی ایجنڈے کا حصہ بنا سکتا ہے۔ سب سے مؤثر مہم تھر کول کے مسئلے پر تھی۔ ہم نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک اجتماعی مہم چلائی تاکہ تھر میں کوئلے کی کان کنی سے ہونے والے نقصانات اور مقامی افراد کی مشکلات کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے، خاص طور پر کوپ 29 کے عالمی پلیٹ فارم پر۔ ہماری پوسٹس، ویڈیوز اور معلوماتی مواد نے تقریباً 150,000 افراد تک رسائی حاصل کی، اور لوگوں کی دلچسپی اور مصروفیت نے واضح کر دیا کہ اگر سوشل میڈیا پر بات کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے تو عوام سننے اور سیکھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

ایک اور بڑی کامیابی سالانہ کلائمٹ مارچ کی سوشل میڈیا مہم تھی، جو کلائمٹ ایکشن سینٹر اور پاکستان ماحولیاتی تحفظ جیسی تنظیموں کے اشتراک سے منعقد کی جاتی ہے۔ اس مارچ کے لیے میں نے سوشل میڈیا پر ایسی گرافکس، مختصر ویڈیوز اور معلوماتی مواد تیار کیا جو کوئلے کے نقصانات، لوڈشیڈنگ کے مسائل، اور ماحول دوست حل جیسے ای-بائیکس کو اجاگر کرتا تھا۔ اس مہم نے نہ صرف عوام میں آگاہی پیدا کی بلکہ انہیں مارچ میں شمولیت کی ترغیب بھی دی۔ یہ دراصل سوشل میڈیا کی وہ طاقت تھی جس نے اس تحریک کو وسعت دی اور اسے عملی اقدام میں بدل دیا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اُن لوگوں کو آواز دی ہے جو پہلے بولنے سے ڈرتے تھے۔ اب وہ آن لائن گروپس بنا رہے ہیں، اتحاد قائم کر رہے ہیں، اور اپنے مسائل دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ چاہے وہ سندھ دریا کا مسئلہ ہو یا کسی علاقے میں احتجاج، سب کچھ سب سے پہلے سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے، جب کہ روایتی میڈیا پیچھے رہ جاتا ہے۔

یہ صرف ایک ذریعہ نہیں بلکہ ایک انقلاب ہے۔ سوشل میڈیا اب صرف رابطے کا وسیلہ نہیں، بلکہ تبدیلی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ سرحدوں، طبقات، اور طاقت کے تمام پردے چاک کر دیتا ہے۔ ایک موبائل رکھنے والا عام شہری بھی اب رائے عامہ پر اثر ڈال سکتا ہے، حکومتی اداروں پر دباؤ ڈال سکتا ہے، اور انصاف کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

یہی سوشل میڈیا کی اصل طاقت ہے۔ اور اسی لیے ہمیں اسے شعور بیدار کرنے، لوگوں کو متحرک کرنے، اور حقیقی تبدیلی لانے کے لیے استعمال کرتے رہنا چاہیے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اُن لوگوں کو آواز دی ہے جو پہلے بولنے سے ڈرتے تھے۔ اب وہ آن لائن گروپس بنا رہے ہیں، اتحاد قائم کر رہے ہیں، اور اپنے مسائل دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ چاہے وہ سندھ دریا کا مسئلہ ہو یا کسی علاقے میں احتجاج، سب کچھ سب سے پہلے سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے، جب کہ روایتی میڈیا پیچھے رہ جاتا ہے۔

Leave a Comment