آج 22 مئی کو دنیا بھر میں بین الاقوامی یومِ حیاتیاتی تنوع منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد فطرت کی قدر و قیمت اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ رواں برس اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) نے اس دن کی تھیم “فطرت اور پائیدار ترقی کے ساتھ ہم آہنگی“ مقرر کی ہے، جو 2030 ایجنڈا اور کنمنگ-مونٹریال عالمی فریم ورک برائے حیاتیاتی تنوع کے باہمی تعلق کو اجاگر کرتی ہے۔
اسی مناسبت سے آج ہمارے ساتھ موجود ہیں جناب رضوان ارشد، ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ حیاتیاتی تنوع، وزارتِ ماحولیات و رابطہ کاری۔ ہم ان سے جانیں گے کہ حیاتیاتی تنوع ہماری زندگی اور ماحول میں کیا کردار ادا کرتا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اسے کن خطرات کا سامنا ہے، اور اس کے تحفظ کے لیے پاکستان میں کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع اور پاکستان: ایک ماہر حیاتیاتی تنوع سے خصوصی گفتگو
سوال: حیاتیاتی تنوع کی سادہ اور عام فہم تعریف کیا ہو سکتی ہے؟
جواب: حیاتیاتی تنوع ایک وسیع اصطلاح ہے جس میں تمام قدرتی طور پر پائے جانے والے جانور، پودے، جڑی بوٹیاں، ان کا ماحول، اور ان کی جنیاتی تنوع شامل ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے آس پاس موجود تمام زندہ اشیاء اور ان کا ماحولیاتی نظام مل کر حیاتیاتی تنوع بناتے ہیں۔
سوال: جناب رضوان ارشاد، سب سے پہلے ہمیں یہ بتائیے کہ بین الاقوامی سطح پر حیاتیاتی تنوع کے معاملات میں پاکستان کی شرکت کیوں کم دکھائی دیتی ہے؟
جواب: سب سے بڑی رکاوٹ فنڈنگ کی کمی ہے۔ مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمارے وفود زیادہ متحرک انداز میں بین الاقوامی اجلاسوں میں حصہ نہیں لے پاتے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حیاتیاتی تنوع ابھی تک اتنی توجہ حاصل نہیں کر سکی جتنی ماحولیات تبدیلیاں کو حاصل ہے۔ ماحولیات تبدیلیاں سے وابستہ موضوعات میں انڈسٹریز اور بین الاقوامی ادارے دلچسپی لیتے ہیں اور فنڈز بھی فراہم کرتے ہیں، مگر حیاتیاتی تنوع کے لیے مقامی سطح پر سرمایہ کاری بہت محدود ہے۔
سوال: اس وقت پاکستان میں حیاتیاتی تنوع کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ اور کن مسائل کا سامنا ہے؟
جواب: پاکستان میں حیاتیاتی تنوع کی صورتحال دوسرے شعبوں جیسی ہی ہے، جیسے کہ زراعت یا توانائی۔ کچھ شعبوں میں ہم نے اچھی پیش رفت کی ہے، جبکہ کئی شعبے ابھی مزید توجہ کے منتظر ہیں۔ “مین اسٹریمنگ حیاتیاتی تنوع” ایک اہم تصور ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کیا دوسرے شعبے اپنی پالیسی سازی میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہم ڈیم بناتے ہیں تو کیا ہم اس کے ماحولیاتی اثرات پر بھی غور کرتے ہیں؟ یہی چیلنجز ہیں۔
سوال: حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
جواب: وفاقی حکومت کا بنیادی کردار باہمی روابط کو فروغ دینا ہے۔ ہم صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اقوام متحدہ کے کنونشنز جیس حیاتیاتی تنوع پر کنونشن (سی بی ڈی) کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، اور بین الاقوامی این جی اوز سے روابط رکھتے ہیں۔ تاہم، زمین، وسائل اور جنگلات صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اس لیے زمینی سطح پروہ ہی عملی اقدامات کرتے ہیں۔
سوال: ایک عام شہری کے لیے حیاتیاتی تنوع کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: حیاتیاتی تنوع بظاہر ایک سائنسی یا حکومتی اصطلاح لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ ہماری مقامی کمیونٹیز اپنی خوراک، ایندھن، دواؤں اور دیگر ضروریات کے لیے قدرتی وسائل پر انحصار کرتی ہیں۔ جب ان وسائل کا تحفظ ہوتا ہے تو ان کی زندگی بہتر ہوتی ہے، اور جب یہ متاثر ہوتے ہیں تو ان پر براہ راست منفی اثرات پڑتے ہیں۔
سوال: آپ کے خیال میں پائیدار ترقی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
جواب: پائیدار ترقی ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ جب ہم وسائل کا استعمال ذمہ داری سے کرتے ہیں، اعتدال برتتے ہیں، اور قدرتی نظاموں کو بگاڑنے سے گریز کرتے ہیں، تو حیاتیاتی تنوع محفوظ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس کی تھیم بھی فطرت اور پائیدار ترقی کے درمیان ہم آہنگی پر مبنی ہے۔
سوال: ماحولیات تبدیلیوں کے اثرات حیاتیاتی تنوع پر کس طرح پڑ رہے ہیں؟ اور اس سے بچاؤ کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
جواب: ماحولیات تبدیلیاں ایک حقیقت ہے، اور اس کے اثرات نہ صرف انسانوں بلکہ حیاتیاتی تنوع پر بھی شدید ہیں۔ جیسے جیسے درجہ حرارت اور ماحولیاتی حالات بدلتے ہیں، کئی انواع اپنی اصل رہائش گاہ چھوڑ کر نئی جگہوں کی طرف ہجرت کرتی ہیں، جس سے مقامی ایکو سسٹمز متاثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سیلاب، شدید بارشیں یا خشک سالی نہ صرف موجودہ انواع کے ماحول کو برباد کرتی ہیں بلکہ بعض کو نئی جگہوں پر جانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماحول دوست زراعت، جنگلات کے تحفظ، اور کاربن کے اخراج میں کمی جیسے اقدامات اپنائیں۔
حیاتیاتی تنوع کا تحفظ صرف ماہرین یا حکومتی اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد کے فطری ماحول کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک پائیدار مستقبل کی جانب بڑھ سکیں