سعدیہ عبید خان
ماہرین نے شہری ماحولیاتی مسائل کے حل لیے اداروں اور شہریوں کے مابین مضبوط اشتراک ضروری قرار دیا۔
فروزاں نے آرٹسکونسل آف پاکستان کراچی کے تعاون سے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر چوتھے کراچی کلائمیٹ فیسٹیول 2025 کا کامیابی کے ساتھ انعقاد کیا۔اس پروگرام میں موسمیاتی مکالمہ،آگاہی اور کلچر کا بہترین امتزاج پیش کیا گیا۔ جس میں محققین، سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد،فنکاروں، صحافیوں کے علاوہ نوجوان طلباؤ طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔یہ پروگرام،فروزاں کے بانی ا، ایڈیٹرمحمود عالم خالد اور اربن پلانر محمد توحید، ڈائریکٹر فروزاں اور ڈاکٹر وقار احمد کی قیادت میں منعقد کیا گیا۔ اس تقریب میں فروزاں کے سرپرست پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان، سول سوسائٹی کے سینئر اراکین، ماہرین تعلیم، نوجوانوں اور میڈیا کے نمائندوں نے بڑی تعدادشرکت کی۔
پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے ابتدائی کلمات اد ا کرتے ہوئے کہا کہ کراچی شہر موسمیاتی اور ماحولیاتی مسائل کی آمجگاہ بن چکا ہے۔ یہ شہر جو کبھی موسموں کے لحاظ سے معتدل ہو ا کرتا تھا آج شدید گرمی کی لہروں کے ساتھ فضائی آلودگی، اربن فلڈنگ اور خشک سالی کے بحرانوں میں گھر چکا ہے جس کے اثرات ہمیں اپنی زندگیوں میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں لیکن سب سے زیادہ اثرات ہماری صحت پر مرتب ہو رہے ہیں۔ شہر میں ہر قسم کی بیماریاں عام ہو چکی ہیں بلکہ ان میں ہر گذرتے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطا ن کا کہنا تھا کہ ہمیں مل کر سوچنا ہو گا کہ ہم اس شہر کو ان ماحولیاتی آفات سے کیسے محفوظ کریں،اس کے لیے ہمیں عام لوگوں میں آگہی پھیلانے کے مختلف طریقے اپنانے ہوں گے خاص طور پر نوجوانوں میں۔
فیسٹیول کا آغاز پینل ڈسکشن سے کیا گیا،جس کی میزبانی معروف ماحولیاتی صحافی اورایکٹوسٹ عافیہ سلام نے کی۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کو کراچی کے لیے سب سے زیادہ سنگین خطرہ قرار دیتے۔ ہوے، کرائسس اینڈ کلائمیٹ رسک انڈیکس سی سی آر آئی 2025 کی طرف اشارہ کیا، جہاں پاکستان عالمی سطح پر سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کراچی میں ہر شہری مسئلہ خواہ وہ انفراسٹرکچر،صحت عامہ یا غربت سے متعلق ہو ان کی جڑیں ماحولیاتی انحطاط سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کے موثر حل کے لیے جامع موسمیاتی انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ کراچی کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے اور شہر کے بنیادی مسائل کی خرابی کی اصل وجہ ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی اور ماحولیاتی مسائل ہماری بقا کا مسئلہ ہیں اس کے لیے ہمیں اپنی آواز بلند کرنا ہو گی۔
*محمد توحید، اربن پلاننر، جیوگرافر، اور آئی بی اے میں کراچی اربن لیب کے قائم مقام ڈائریکٹر نیشرکا سے گفتگو کرتے ہوئے آب و ہوا سے مربوط بنیادی ڈھانچے، خاص طور پر پانی، سیوریج اور بجلی کے نظام سے متعلق منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا،۔ انہوں نے کراچی کو درپیش دو اہم خطرات سے خبردار کیاجن میں تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور شدید بارش سے ہونے والی اربن فلڈنگ شامل ہیں۔ پانی کی غیر مساوی تقسیم پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) پر تنقید کرتے ہوئے، توحید نے اس مسئلے کو موسمیاتی انصاف*میں سے ایک قرار دیا اور عوامی انفراسٹرکچر کی فراہمی میں اصلاحات پر زور دیا۔انھوں نے مزید کہا کہ کراچی شہر میں 70فیصد آبادی وہ ہے جوبارش میں اپنے گھر کی ٹین کی چادریں سنبھال رہے ہوتے ہیں،اس حوالے سے حکومت اور بیورو کریسی کو بھی سوچنا ہو گا۔
زیبسٹ میں صحت عامہ کی ماہر اور لیکچرر ماہ پارا خان نے موسمیاتی تبدیلی اور صحت عامہ کے درمیان گہرے تعلق کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، بڑھتے درجہ حرارت سے پیدا ہونے والی بیماریوں، اور کراچی میں سانس کے مسائل کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار کا جائزہ پیش کیا جو گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی اور غیر منظم ایندھن کے جلنے سے منسلک ہیں۔ مہ پارہ نے سنگین خطرات سے آگاہ کرتے ہوے بتایا کہ لوگ اس بات سے لا علم ہیں کہ کلائمٹ چینج کتنی تیزی سے ان کی زندگیوں پر خطرے کی تلوار بن کر لٹک رہا ہے انہوں نے پاکستان میں صحت اور آب و ہوا کے تعلق پر مربوط تحقیق پر زور دیا۔
پاکستان فشر فوک فورم کے جنرل سیکریٹری سعید بلوچ نے موسمیاتی تبدیلی کے لیے *ساحلی آبادیوں کودرپیش خطرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بحیرہ عرب میں بغیر ٹریٹ کیے ہوئے صنعتی فضلے اورگندے پانی کو بہانے کی مذمت کی، ان کے مطابق یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے آبی ماحولیاتی نظام اور روایتی زریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہے۔سعید بلوچ کے مطابق ہمارے بزرگ بتاتے تھے کہ کراچی اب کے مقابلے میں زیادہ ہرا بھرا تھا۔اب تو کنکریٹ کا جنگل ہے۔پہلے نیم کے درخت اور جھاڑیاں شہر کو آکسیجن فراہم کرتے تھے۔شہری ترقی کے نام پر تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا تو ماحولیاتی ابتری بھی شروع ہوئی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اداروں کو پابند کیا جاتا کہ وہ لازماگرین ایریا رکھیں گے۔بلڈرز من مانیاں کر رہے ہیں وہ پندرہ بیس درخت لگانے کو بھی راضی نہیں۔انہوں نے کوئلے کے متبادل انرجی زرایع کے استعمال کی اہمیت پر بھی بات کی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب نے مل کر بحریہ ٹاؤن کے خلاف جدوجہد کی لیکن ھکومت نے اپنا کام کر دیا، ہمارے مینگروز اور ڈیلٹا تباہ ہو چکا ہے۔انھوں نے مزید کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سرف ہمارے محلے،شہر یا ملک پہ نہیں ہیں بلکہ یہ اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورے ہیں اور ہم سب اس شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
کلائمیٹ ایکشن سینٹر کراچی کے سی ای او یاسر حسین نے آب و ہوا کے اعداد و شمار اور عوامی آگاہی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ شہری اور دیہی پاکستان میں کمیونٹی کی زیر قیادت موافقت کے پروگراموں کی حمایت کرے۔یاسر نے ڈیٹا کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پروجیکٹ میں اسے پہلے درجہ پر رکھا پھر دوسرے نمبر پر واٹر اور ڈرینج سسٹم کو۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے پچاس سالوں میں ہمارا ڈرینج سسٹم اپ ڈیٹ نہیں ہوا جس کی وجہ سے بارش کا پانی اوپر ہی سے گزر جاتا ہے۔
بارش کے پانی کو اسٹور کیا جانا ضروری ہے۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق زیر زمین پانی کی کمی سے شہر کے پرانے علاقے دھنس رہے ہیں۔ایکوافر سے پانی نکالنے کے باعث پیالے کی طرح دھنستا جا رہا ہے۔یاسر نے متنبہ کیا کہ ہم قحط سالی کی کیفیت میں ہیں۔گڈاپ کے علاقے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ اپنے لہلہاتے کھیتوں کی وجہ سے مشہور تھا جہاں اب خشک سالی کا راج ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ لوگ کچھ نہیں کرتے یہ کہنا غلط ہے کیوں کہ حکومت کائی نظام بناتی ہے تو لوگ اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔
منزہ صدیقی، رائٹر اور میڈیا پروفیشنل، نے ماحولیاتی بیانیے کی تشکیل میں میڈیا کے کردار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ مین اسٹریم میڈیا میں محدود موسمیاتی کوریج خاص طور پر گرمی کی لہر اور سیلاب جیسی آفات کے دوران اس طرح نہیں ہوتی جس کی ضرورت ہمیں آج ہے۔
انہوں نے خبر رساں اداروں پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی صحافت کو ترجیح دیں۔ان کا کہنا تھا کہ چونکہ موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹنگ کے حولے سے ریٹنگ نہیں آتی ہیں اس لیے مالکان کی ترجیحات میں یہ موضوع شامل نہیں ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جس زمانے میں نجی چینل نہیں ہوتے تھے اور صرف پرنٹ میدیا اور پی ٹی وی ہوتا تھا اس زمانے میں ماحولیات کی کوریج آج کے مقابلے میں زیادہ ہوتی تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ماحولیات کے حوالے سے جو کانٹینٹ آتا تھا وہ اب کسی بھی صحافتی پلیٹ فارم پر نہیں ملتا ہے۔
تقریب کا اختتام اسٹیج ڈرامے کے ساتھ ہوا جس کا عنوان تھا ”مجھے کیا میں، میں تو گدھا ہوں!” وجیہ وارثی کی ہدایتکاری میں اس ڈرامے میں آب و ہوا پر غفلت اور بے حسی کے موضوعات کو برتنے کے ساتھ ساتھ مزاح اور طنز کا استعمال کیا، ہر عمر کے سامعین نے اسے انجواے کیا۔ڈرمے کے ہدایتکار وجیہ وارثی تھے جب پروگرام کی ہوسٹ معروف اینکر بینا خان تھیں۔
کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمنٹل اسٹڈیز کے ڈاکٹروقار احمد نے تقریب کو کامیاب بنانے کے لیے تمام شرکاء، پینلسٹس اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔فروزاں کی جانب سے محمود عالم خالد اور محمد توحید اور ڈاکٹر وقار نے عوامی سطح پر آب و ہوا سے متعلق آگاہی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے تقریب کا اختتام کیا اورآرٹس کونسل کراچی اور تعاون کرنے والے تمام اداروں کا شکریہ ادا کیا۔