مضامین

ہیٹ ویو ز اور غریب: اے سی کمرے کا مشورہ کس کے لیے؟؟

تحریر: فرحین (اسلام آباد)

جب تک اس مسئلے کو صرف ایک موسمی خطرہ سمجھا جاتا رہے گا اس کے انسانی اثرات کو کم کرنا نا ممکن ہو گا۔

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گذری جس میں ہیٹ ویوز سے بچاؤ کے طریقے بتائے گئے تھے۔ابتدا میں تو یہ معلومات کارآمد محسوس ہوئیں۔سائے میں رہیں، پانی زیادہ پئیں، جسم کو ڈھانپ کر رکھیں اور شدید گرمی کے اقات میں گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔ لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب ان ہی تجاویز میں لکھا تھا کہ ”شدید گرمی کے وقت اے سی میں رہیں یا سایہ دارجگہ پر پناہ لیں“۔
یہ پڑھ کر رکنا پڑا کہ یہ مشورہ آخر کس کو دیا جا رہا ہے؟

یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد جن کی بڑی تعدادرکشہ ڈرائیور،ڈیلیوری رائیڈرز،مزدور،گھریلو ملازمین،ریڑھی بان اور فٹ پاتھ پر کام کرنے والے ورکرز پر مشتمل ہے، کیا ان کے لیے یہ تجاویز ایک مذاق سے کم نہیں؟جنھیں دن کا کھانا نصیب نہیں وہ اے سی والے کمرے میں کہاں سے جائیں؟ ان لوگوں کے پاس نہ تو چھتری استمال کرنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی کام کے دوران کسی سایہ دار شیڈ میں پناہ لینا ممکن ہوتا ہے۔یہ وہ طبقہ ہے جو پاکستان کی تقریبا 60فیصد آبادی پر مشتمل ہے یعنی ملک کی اکثریتی آبادی۔اگر موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی ہیٹ ویوزسب سے زیادہ کسی کو متاثر کر رہی ہے تو وہ یہی غریب اور کمزور طبقہ ہے۔

:تحقیقی حقائق

عالمی بینک کے مطابق،2024میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3فیصد تک جا پہونچی ہے، یعنی 13ملین افرادمزید غربت کا شکار ہو چکے ہیں،اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 83فیصد گھرانے روزانہ دو ڈالرسے بھی کم پر گذارہ کرتے ہیں۔ (رپورٹ)۔ایک محتاط اندازے اور مختلف میڈیا رپورٹس میں بیان کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق دیہاڑی دار مزدور کی یومیہ آمدنی صرف 500سے800روپے کے درمیان ہوتی ہے۔

اسلام آباد جو اس وقت 42سے46ڈگری کے درمیان جھلس رہا ہے ہیٹ ویو سے ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں شامل ہے۔ مہکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق یہ درجہ حرارت دارلحکومت کی تاریخ کا بلند ترین درجہ حرارت ہے، اس کے باجود شہر میں درختوں اور سایہ دار مقامات کی شدید قلت ہے۔ جناح ایونیوجیسی مرکزی شاہراہ پر میلوں دور تک کوئی سایہ دار درخت اور شیڈ نہیں ملتا۔

سوال یہ ہے کہ اگر مہکمہ موسمیات پہلے ہی سے متنبہ کر رہا تھا کہ 2024-25میں بد ترین ہیٹ ویو کا سامنا ہو گا تو حکومت،بلدیاتی ادارے اور پالیسی ساز خاموش کیوں رہے؟کیا شہری ترقی صرف کنکریٹ،شیشے کی عمارتوں اور مالز کی تعمیر کا نام ہے؟کیا منصوبہ بندی صرف ان لوگوں کے لیے کی جاتی ہے جو اے سی کمروں میں بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں؟۔ اب وقت آگیا ہے کہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو محض ایک مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے معاشرتی اور طبقاتی مسئلہ سمجھا جائے۔جب تک پالیسی سازی میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کی زندگیوں کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا تب تک ہیٹ ویو سے بچاؤ کے مشورے صرف طاقتور اور خوشحال طبقے کے لیے ہی موزوں رہیں گے۔

:ایمرجنسی انچارج جناح اسپتال کراچی ڈاکٹر عرفان کے مطابق

”ہیٹ ویو کے دنوں میں اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پانی کی کمی،بیہوشی،لو لگنے اور دل کے مریضوں کی حالت بگڑنے جیسے کیسز عام ہو جاتے ہیں خاص طور پر وہ لوگ جو دھوپ میں کام کرتے ہیں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں“۔ان کا کہنا تھا کہ کوشش کریں کہ دوپہر 12بجے سے 4بجے تک بلا ضرورت باہر نہ نکلیں اور اگر جائیں بھی تو پانی کی بوتل ساتھ ہو،کوئی گیلا تولیہ یا کپڑا ساتھ رکھیں اور کوشش کریں کہ سائے میں رہیں۔

:مہکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزاد خان کے مطابق

”ہیٹ ویوز ماحولیاتی تبدیلیوں کی واضع علامت ہیں، ان کی شدت اور دورانییمیں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیصرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، اگر چہ پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ 0.8ہے لیکن ہم چین اور بھارت جیسے بڑے ملکوں کے اخراج کے اثرات بھی برداشت کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 2015میں پیرس معاہدہ طے پایا تھا کہ درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سے کم رکھا جائے گالیکن اب ہم اس حد کو عبور کرچکے ہیں، اسلام آباد جیسے شہر میں جو پہلے خاصا معتدل رہا ہے اب وہاں پر 5دن مسلسل45ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ کا درجہ حرارت معمول بن رہا ہے جس کی بنیادی وجہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی حدت ہے۔

:ماہر نفسیات مدیحہ خان کہتی ہیں

”شدید گرمی ضرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، ہیٹ ویوز کے دوران چڑچڑا پن، بے چینی کے ساتھ ذہنی دباؤ میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، خاص طر پر ان افراد میں جو معاشی دباؤ کا شکار بھی ہوتے ہیں“۔

دوسری جانب ایک گھریلو ملازم محمد اشرف نے گفتگو کرتے ہوئے اپنی مجبوری یو ں بیان کی:
”گرمی کی وجہ سے گھر سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا ہے، لیکن ہم کیا کریں؟مجبوری ہے اگر کام نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟ان کا کہنا تھا کہ سخت دھوپ میں موٹر سائیکل چلانا محال ہے، دھوپ بہت تیز اور ناقبل برداشت ہوتی ہے۔

:ریاض جو بائیکا چلاتے ہیں کا کہنا ہے کہ

”سخت گرمی میں موٹر سائیکل چلانا قیامت سے کم نہیں۔ ایک طرف سورج کی تپش تو دوسری طرف سڑکوں کے اطراف سایہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔وقاص روزانہ موٹر سائیکل پر دفتر جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ”سخت گرمی میں ہم گھر میں نہیں بیٹھ سکتے دفتر جانا ہماری مجبوری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سخت موسم میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ورک فرام ہوم یا چھٹی کا اعلان کرے، اسلام آباد کی سڑکیں جو پہلے سایہ دیتی تھیں اب اجڑ چکی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگ کے گولے چہرے سے ٹکرا رہے ہوں۔

اشفاق جو ایک عمر رسیدہ مزدور ہیں ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ گرمی اتنی شدید کیوں ہے۔، وہ کہتے ہیں کہ ”مجھے گرمی کی وجوہات سے کوئی غرص نہیں مجھے تو صرف اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ پالنا ہے، اس امید پر سڑک پر کھڑا رہتا ہوں کہ شاید آج کوئی کام مل جائے۔آصف جو ایک نواحی گاؤں سے آتے ہیں اور بائیکا چلاتے ہیں بتاتے ہیں کہ ”روزگا ر نہ ہونے کے برابر ہے، بڑی مشکل سے 800سے 1000کی دیہاڑی لگتی ہے، اس کے لیے ہمیں سارا دن دحوپ میں خوار ہونا پڑتا ہے، کہیں کوئی شیڈ نہیں، درخت کم ہوتے جا رہے ہیں،دوپہر 12بجے کے بعد سے شام تک شاذو نادر ہی کوئی سواری ملتی ہے ایسے میں غریب کہاں جائے“؟

گرمی کے اس عروج پر جب دوپہر کے وقت گلیاں ویران ہوتی ہیں ایک آواز ضرور سنائی دیتی ہے اور وہ ہے آئس کریم والے کی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گرمی یا بارش،گھر میں نہیں بیٹھ سکتے کیوں کہ ان کا روز کا رزق ان کو گھر سے باہر نکال کر لے آتا ہے۔

یہ صورتحال ایک واضع تصویر پیش کرتی ہے کہ شدید گرمی صرف ایک موسمیات تغیر نہیں بلکہ اب یہ ایک سماجی اور معاشی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی قیمت وہ لوگ ادا کر رہے ہیں جن کے پاس اس سے محفوظ رہنے کے ذرائع ہی موجود نہیں ہیں۔ جب تک اس مسئلے کو صرف ایک موسمی خطرہ سمجھا جاتا رہے گا اس کے انسانی اثرات کو کم کرنا نا ممکن ہو گا۔

Leave a Comment