فروزاں

تھر میں کوئلے کی کان کنی میں توسیع: سول سوسائٹی اور مقامی لوگوں کا اظہار تشویش

کوئلے کی کان کنی میں توسیع سے پاکستانی شہریوں کے ان حقوق کی خلاف ورزی ہو گی جو انہیں آئین کی 26ویں ترمیم کے تحت حاصل ہے۔

تھرپارکر کے متعدد دیہاتوں کے رہائشیوں نے تھر کول اینڈ انرجی بورڈ میں تھر کول فیلڈ بلاک-ٹو میں کوئلے کی کان کنی میں توسیع کے لیے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کردیا ۔

تھر کوئلو راجونی کٹھ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں، تھاریو ھالیپوٹو، بٹڑا، کھاریو غلام شاہ، میہاری سمیت دیگر دیہات کے لوگوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس درخواست پر عوامی سماعت ”ہماری آواز سنے بغیر اور اس تباہی کو تسلیم کیے بغیر کی جا رہی ہے جو ہم پہلے ہی جھیل چکے ہیں ”۔


بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ”ترقی کے مخالف نہیں ” ہیں بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ”عزت، تحفظ اور انصاف کے ساتھ جینے کا حق” تسلیم کیا جائے۔

بیان میں کوئلے کی کان کنی سے متاثرہ لوگوں نے کہا کہ، ”تھر میں ہونے والی موجودہ ترقی ہماری زمینوں کو تباہ، ہمارے پانی کو زہریلا، اور ہمارے خاندانوں کو بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس وقت ہماری خاموشی کا مطلب یہ ہو گا کہ کل ہماری بستیاں مکمل طور پر مٹ جائیں گی”۔


لوگوں کا کہنا تھا کہ ” تھر کے مقامی لوگ پہلے ہی کوئلے کی کان کنی اور کوئلے پر مبنی بجلی کے منصوبوں سے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

تھر میں کوئلے کی کان کنی اور بجلی گھروں کی وجہ سے زیر زمین پانی کے قلیل وسائل کو پہنچنے والے شدید نقصان کو اجاگر کرتے ہوئے، تھر کوئلو راجوُنی کٹھ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ

کوئلے کی کان کنی میں کسی بھی قسم کی توسیع سے ان نقصانات کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہو گا۔ ”ہمارے دیہاتوں میں، کوئلے کے منصوبوں سے مقامی لوگوں کو لگنے والے زخم گہرے ہیں اور یہ زخم مزید بڑھ رہے ہیں۔

اب، تھر کول فیلڈ بلاک-ٹو میں کوئلے کی کان کنی کی ممکنہ توسیع کے ساتھ، ہمارے بدترین خدشات محض اندیشے نہیں، بلکہ تیزی سے ایک سنگین حقیقت بن جائیں گے۔”

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کان کنی کی توسیع ”ہمارے مزید دیہات کو نگلنے اور ان بستیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی دھمکی ہے جنہیں محفوظ بحالی یا معاوضے کی کوئی ضمانت حاصل نہیں ”۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان کے ختم ہوتے گلیشئرز: بقا کا برفانی بحران

موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے


راجونی کٹھ نے حکوُمت، سندھ کول اینڈ انرجی بورڈ اور سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی سے مطالبہ کیا ہے کہ ”بلاک-ٹو میں کان کنی کی توسیع کی منظوری کو فوری طور پر روکیں جب تک کہ اس توسیع کے لیے منصفانہ، شفاف اور عوام کو شامل کرنے والا عمل یقینی نہ بنایا جائے”۔

بیان میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ تھر میں کوئلے کی کان کنی اور کوئلے پر مبنی بجلی کی پیداوار کے موجودہ اور مستقبل کے منصوبوں سے متاثر ہونے والے تمام دیہات کے لیے بحالی اور معاوضے کی ایک تحریری، عوامی پالیسی بنائی جائے اور اس پر عملدرآمد ہو ۔

یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ فیصلوں کے تمام مراحل میں مقامی نمائندوں،خصوصاً خواتین، کسانوں اور محروم ذاتوں کو شامل کیا جائے۔

تھر میں کوئلے کی کان کنی میں توسیع: سول سوسائٹی اور مقامی لوگوں کا اظہار تشویش


اس حوالے سے الائینس فار کلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی نے بھی کول فیلڈ بلاک ٹومیں کوئلے کے ٹیرفٖ پر نظر ثانی اور کوئلے کی کان کنی میں توسیع سے متعلق تھر کول اینڈ انرجی بورڈ میں درج ایک درخواست کو مسترد کیا ہے۔ الائینس نے پالیسی ساز اداروں اور ریگوُلیٹرزسے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں کوئلے کی بے لگام توسیع کے سنگین سماجی اور ماحولیاتی نقصانات کو تسلیم کریں کیونکہ یہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی اور معاشی انصاف کا معاملہ بھی ہے۔


اپنے بیان میں الائینس فار کلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی نے کوئلے کے ٹیرف میں اضافہ اور کوئلہ کی کان کنی میں بڑہوتری سے متعلق درخواست کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضع رہے کہ الائنس فا رکلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی سول سوسائیٹی کا ایک اتحاد ہیجو پاکستان میں فاسل ایندھن سے نجات اور قابل تجدید توانائی اپنانے کے لئے منصفانہ تبدیلی کے لئے کوشاں ہے۔

اس اتحاد کے مطابق، درخواست میں سالانہ کوئلے کی کان کنی کو 7.6 ملین ٹن سے بڑھا کر 11.2 ملین ٹن کرنے اور کوئلے کے نرخوں میں نمایاں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ درخواست میں قانونی، طریقہ کار، ماحولیاتی اور مالیاتی اعتبار سے سنگین خامیاں موجود ہیں۔ اتحا نے د خبردارکیا ہے کہ اگر یہ درخواست منظور کی گئی تو یہ نہ صرف آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ ضابطہ جاتی دیانت داری کو نقصان پہنچائے گی اور غیر منصفانہ بوجھ صارفین اور مقامی لوگوں پر منتقل کرے گی۔


اتحاد کی جانب سے جاری ہونینے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ: ”اس درخواست کی منظوری پاکستان کے کوئلے پر انحصار کو مزید مضبوط کرے گی، جو پیرس معاہدے کے تحت ملک کے موسمیاتی معاھدوں کے خلاف ہے”۔

بیان کے مطابق، اتحاد کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ تھر میں کوئلے کی کان کنی میں توسیع سے پاکستانی شہریوں کے ان حقوق کی خلاف ورذی ہو گی جو انہیں آئین کی 26ویں ترمیم کے تحت ایک صحت مند، صاف اور پائیدار ماحول کی صورت میں حاصل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کوئلے کی کان کنی میں توسیع سے تھر کے باشندوں کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔ چونکہ کوئلے کی کان کنی اور کوئلے پر مبنی بجلی کی پیداوار پہلے ہی تھر کے قلیل آبی وسائل کو نقصان پہنچا چکی ہے، اس لیے کسی بھی مزید توسیع سے یہ نقصان تیز تر اور شدید تر ہوجائے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں