فروزاں کے مضامین

ضلع چکوال آفت زدہ قرار

شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب نے ہر طرف تباہی مچا دی، پہاڑی علاقوں پر واقع درجنوں دیہات کا رابطہ چکوال سے منقطع ہو گیا ۔

پورے ملک میں رواں سال کی مون سون بارشوں نے جہاں تباہی مچائی وہیں، ضلع چکوال میں اب تک صورت حال ابتر ہے۔ سولہ اور سترہ جولائی سے شروع ہونے والی بارشوں نے صورتحال کو سنگین کر رکھا ہے۔

اگست کے پہلے ہفتے میں دلجبہ کے علاقے کو چکوال سے ملانے والی واحد رابطہ سڑک تیز سیلابی پانی کے باعث بہہ گئی۔ پہاڑی علاقوں پر واقع درجنوں دیہات کا رابطہ چکوال سے منقطع ہو گیا ۔

چکوال کا مرکزی نالہ بنہاکو،دوسری جانب سے تین درجن دیہات کو ملانے والا پل ٹوٹ گیا۔

چکوال کے علاقوں میں موسلادھار بارش سے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، سڑکیں پل اور مکانات متاثر ہوئے، خریف کی کھڑی فصلوں کو بھی نقصان، تاجروں اور عوام کے کروڑوں ڈوب گئے۔

مون سون کی 28 گھنٹوں سے زائد مسلسل اور شدید بارش نے ہر طرف تباہی پھیلا دی،طوفانی بارش کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آگئی، جبکہ علاقہ جھنگڑ پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے کی زد میں آگیا جس سے مواصلات کا نظام بری طرح تباہ ہوگیا اور زیر تعمیر سڑکیں سیلاب کی نظر ہو گئیں ۔

کئی مکانات کی چھتیں گرنے سے 20 سے زائد قیمتی مویشی ہلاک ہو گئے۔ سیلابی صورتحال کے باعث کئی متاثرہ خاندان محفوظ مقامات پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ چکوال میں ایسی شدید بارشیں سن1947، سن 1960اور سن 1992میں ہوئی تھیں۔

جھنگڑ میں بجلی کے پول گرنے سے بجلی کا نظام بھی متاثر ہو گیا۔ہزاروں کی آبادی پر مشتمل اور دو درجن سے زائد دیہات کا تجارتی مرکز چکوال کا قصبہ ڈھوڈہ سیلابی ریلے سے برباد ہو گیا۔

ڈسٹرکٹ گزٹئیر جہلم 1904 کے مطابق چکوال شہر کا نام جموں سے تعلق رکھنے والے چوہدری چکو خان کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں 1525 میں اس کی بنیاد رکھی تھی۔

یہ کئی صدیوں تک تعلقہ دھن چوراسی کا ایک چھوٹا لیکن مرکزی شہر رہا۔ 1881 میں انگریزوں کے دور میں اسے تحصیل ہیڈ کوارٹر قرار دیا گیا۔ آخرکار اسے سن 1985 میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔

چکوال شمالی پنجاب میں پوٹھوہار کے علاقے دھانی میں واقع ہے۔ چکوال اور آس پاس کے علاقے قدیم سوان تہذیب کا گڑھ ہیں اور اس کی تاریخی اہمیت ناقابل فراموش ہے۔

اس علاقے کی تاریخ، مہا بھارت کے نیم افسانوی دور سے ملتی ہے۔ چکوال راجہ امبھی کے ساتھ سکندر اعظم کی مشہور ملاقات کا مقام بھی ہے۔

یہاں ہندووں کا مقدس ترین مقام کٹاس راج بھی موجود ہے۔سوشل میڈیا پر اس تاریخی مقام کے متاثر ہونے کی خبر پر سرکاری حکام نے انکار کیا۔

مقامی صحافی نبیل ڈھکو نے بتایا کہ میں نے اس جگہ کا خود دورہ کیا اور دیکھا کہ تین مختلف جگہوں سے مندر کی چھ سو فٹ دور باؤنڈری وال کو جزوی نقصان پہنچاہے۔ گرچہ بارش کا پہلو تو ہے ہی مگر حکام کی کوتاہی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

چوآسیدن شاہ کا تاریخی مقام کٹاس راج بھی مسلسل ہونے والی شدید بارش سے متاثر ہوا۔سیلابی ریلا کٹاس راج میں داخل ہو گیا جس ہندو برادری کا مقدس تالاب سیلابی پانی سے بھر گیا کٹاس راج میں سیلابی ریلے کی آمد پر اسسٹنٹ کمشنر چوآسیدن شاہ فوری طور پر کٹاس راج پہنچے اور مندروں کا معائنہ کیا۔

اسسٹنٹ کمشنر عمر سرور کا کہنا تھا کہ مندر اونچی جگہ پر ہونے کی وجہ سے سیلابی پانی سے محفوظ رہے تاہم ارد گرد کے رہائشیوں کو محفوظ جگہ پر منتقل کردیا گیا کٹاس راج کے تالاب سے نکلنے والے پانی کو مشینری لگا کر جنگل کی طرف موڑ دیا گیا جس سے چوآسیدن شاہ شہر کی آبادی محفوظ ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیں

جھنگ میں صاف پانی کے نام پر زہر کی فروخت

ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

اسسٹنٹ کمشنر چوآسیدن شاہ عمر سرور کا کہنا تھا کہ بروقت اقدام سے کٹاس راج کی تاریخی عمارتوں کو بچا لیا گیا ہے اور ارد گرد کی آبادی کو پہلے سے ہی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا تھا جس سے سیلابی ریلے سے کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

تاریخی کٹاس راج کا مشہور تالاب قدرتی واٹر کورس کے درمیان واقع ہے۔ آس پاس کے دیہاتوں، سیمنٹ فیکٹری اور پہاڑوں سے آنے والا سارا پانی اس تالاب میں گرتا ہے۔

ماضی میں جب بھی تالاب بھرتا تھا تو اس کا پانی وادی گندھالا میں چلا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی کچھ سال پہلے تالاب خشک ہوگیا اور سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، متعلقہ حکام نے سیمنٹ فیکٹری کی مدد سے تالاب کو پانی سے بھرے رکھنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا۔

انہوں نے اسے بھرنے کے لیے تالاب کے قریب ایک ٹربائن لگائی اور اس کے نکلنے پر نالے کو بند کر دیا تاکہ تالاب کا پانی باہر نہ نکل سکے۔ نالہ بند ہونے کی وجہ سے تالاب بھر گیا اور سیلاب اس کے لان میں ڈوب گیا، جس سے داخلی دروازے اور مرکزی دروازے کو نقصان پہنچا۔

چکوال میں مون سون کی حالیہ شدید بارش کے بعد یہاں کے چھوٹے ڈیم، ندی نالے، جھیلیں اور تالاب پانی سے لبالب بھر گئے۔ گزشتہ ہفتہ میں پابندی کے باوجود ان میں نہانے والے سات افراد جان سے گئے۔ پندرہ جولائی سے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔

ضلع چکوال میں حالیہ برسات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کے بعد سانپ کاٹے کے واقعات میں اضافہ ہو ا، پانی جمع ہونے سے ڈینگی اور ملیریا کا خطرہ بھی منڈلانے لگا، سانپوں کے ڈسنے سے ضلع بھر میں پچاس سے زائد افراد متاثر ہوئے۔

چکوال میں ریکارڈ بارش سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے چکوال کا دورہ کیا۔ انھیں ضلعی کمپلیکس چکوال میں بریفنگ دی گئی۔ت

وقع کی جارہی تھی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گی مگر رابطہ سڑکیں ٹوٹی ہونے کی وجہ سے وہ واپس روانہ ہو گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء کے لیے دس دس لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے۔انھوں نے تمام رابطہ پلوں کی فوری بحالی اور جہلم روڈ پر اسٹیل پل بنانے کی ہدایت کی۔

چکوال میں حالیہ بارشوں کے باعث عوام سے زیادہ سرکاری املاک کا نقصان ہوا، ضلعی انتظامیہ کی عوام کے پندرہ کروڑ جب کہ سرکاری املاک کے لیے پونے چار ارب روپے کی ڈیمانڈ۔ ڈپٹی کمشنر چکوال کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ڈیمیج اسیسمنٹ کمیٹی نے تمام تحصیلوں میں متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیا جس میں پٹواری، یونین کونسل سیکرٹریز، نمبرداران اور مقامی نمائندوں نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔

تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق ضلع کی چاروں تحصیلوں چکوال، تلہ گنگ، کلرکہار اور چوآسیدن شاہ میں مجموعی طور پر 173 دیہات متاثر ہوئے جن میں سے سب سے زیادہ 114 دیہات چکوال میں، 37 دیہات چوآسیدن شاہ، 16 کلرکہار اور 6 تلہ گنگ میں متاثر ہوئے۔

ان علاقوں میں 2973 مکانات کو نقصان پہنچا جن میں سے 136 مکمل طور پر جبکہ 2837 مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ مکانات کی مرمت و بحالی کے لیے انتظامیہ نے 14 کروڑ 79 لاکھ 3 ہزار روپے کے فنڈز کی سفارش کی ہے۔

پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ نے ملک بھر میں ہونے والی حالیہ بارش کا ریکارڈ جاری کردیا۔کلاؤڈ برسٹ کے باعث چوآسیدن شاہ میں ریکارڈ بارش ہوئی تحصیل چکوال کے نواحی علاقہ للیاندی میں 423 ملی لیٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔چوآسیدن شاہ کے علاقہ جھنگڑ، وہالی زیر میں 351 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی۔

شہر چوآسیدن شاہ میں، 330 ملی لیٹر بارش ریکارڈ ہوئی۔ پی ایم ڈی کے مطابق ملک بھر میں سب سے زیادہ بارش تحصیل چکوال اور تحصیل چوآسیدن شاہ میں ریکارڈ کی گئی۔

چکوال کے تقریباً دس مقامات کو حساس قرار دیا گیا ہے جن میں دیہاتی علاقوں کے ساتھ چکوال شہر کے کچھ نشیبی علاقے بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ چکوال میں موسم کی پیشن کے لیے ایک نجی ویدر سروس موجود ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں