رپورٹ
یہ عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس میں 91 ممالک نے تحریری بیانات اور 97 ممالک نے زبانی دلائل میں حصہ لیا۔
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ کرہ ارض کے ماحول کو گرین ہاؤس( زہریلی) گیسوں کے اخراج سے تحفظ دینا، اس معاملے میں ضروری احتیاط سے کام لینا اور اس حوالے سے باہمی تعاون یقینی بنانا تمام ممالک کی اہم ذمہ داری ہے۔
نیدرلینڈکے شہر دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالتِ انصاف (بین الاقوامی عدالت انصاف ، آئی سی جے) نے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ممالک کی قانونی ذمہ داریوں پر اپنا طویل عرصے سے منتظر مشاورتی فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ عدالت کے صدر، جج ایواساوا یووجی نے پڑھ کر سنایا۔
فیصلہ سناتے ہوئے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے صدر، یووجی ایواساوا نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک ”فوری اور وجودی خطرہ” ہے، اور جو ریاستیں اس بحران سے نمٹنے کی اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہی ہیں، وہ ”بین الاقوامی طور پر ایک غلط عمل” کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
واضع رہے کہ اس مقدمے میں کی جانے والیبحث بڑی اور خوشحال معیشتوں اور چھوٹے، کم ترقی یافتہ ممالک کے درمیان تھی، جوتیزی سے گرم ہوتے ہوئے سیارے کے رحم و کرم پر ہیں۔ ب
بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک، جن میں امریکہ اور بھارت شامل ہیں، کا مؤقف تھا کہ اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی (یو این ایف سی سی سی) کے تحت موجودہ قانونی شقیں کافی ہیں، اور ماحولیاتی اقدام میں بالخصوص زہریلی گیسوں کے اخراج کے حوالے سے ریاستی ذمہ داری کا ازسرِ نو جائزہ لینا ضروری نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ ترین عدالتی ادارے نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ممالک پر گرین ہاؤس گیسوں(زہریلی گیسوں کےاخراج ) سے ماحول کوتحفظ دینے کی ذمہ داری قانونی طور پر عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنی اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے پوری سنجیدگی اور باہمی تعاون کے ساتھ عمل کرنا ہو گا۔
عدالت نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے میں کہا کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے تا کہ زہریلی گیسوں کا اخراج کم سے کم ہو۔
ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔

23 جولائی کوسنائے جانے والے اس فیصلے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) نے قرار دیا کہ موسمیاتی تبدیلی ”زندگی کی تمام اقسام کو خطرے میں ڈالتی ہے” اور اگر ممالک اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام رہے تو انہیں بین الاقوامی قانون کے تحت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عدالت نیفیصلے میں کہا کہ ایک صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کئی دیگر انسانی حقوق کے مکمل طور پر حاصل ہونے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا، عدالت کے مطابق، انسانی حقوق کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ماحولیاتی نظام اور اس کے دیگر حصوں کا تحفظ نہ کیا جائے۔
یہ اہم مقدمہ اب ان ممالک کے لیے راستہ کھولتا ہے جو موسمیاتی آفات سے متاثر ہوئے ہیں کہ وہ کاربن کا بڑے پیمانے پر زہریلی گیسوں کاخراج کرنے والے ممالک کے خلاف تلافی کے لیے مقدمات دائر کر سکیں اور شہری اپنے یا دوسرے ممالک کی جانب سے محفوظ ماحولیاتی حالات کو یقینی بنانے میں ناکامی کی صورت میں اپنے انسانی حقوق کی حفاظت نہ ہونے پر اپنی حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرا سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک وجودی بحران ہے جو سیارے پر تمام اقسام کی زندگی اور ہمارے سیارے کی صحت کو شدید خطرے میں ڈال رہاہے۔
یہ بھی پڑھیں
ارلی وارننگ سسٹم: قدرتی آفات کے خلاف پہلا دفاعی مورچہ
ماحولیاتی تبدیلی اور شنگھائی تعاون تنظیم کا کردار
آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی جانب سے عدالت میں ایک دلیل یہ دی گئی تھی کہ موسمیاتی معاہدے ہی بین الاقوامی قانون کے تحت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی واحد ذمہ داریاں ہیں لیکن عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ اس کے برعکس، دیگر بین الاقوامی قوانین بھی لاگو ہوتے ہیں۔یاد رے کہ امریکہ نے رواں سال کے آغاز میں پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ تاہم عدالت کی رائے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک اب بھی اُن بین الاقوامی قوانین کے تحت موسمیاتی نقصانات کے لیے جوابدہ ہیں، جو تمام ممالک پر لاگو ہوتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی کئی انسانی سرگرمیوں کے مجموعی اثرات سے پیدا ہوتی ہے، لیکن سائنسی طور پر یہ ممکن ہے کہ ہر ملک کا عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے اخراج میں مجموعی حصہ بشمول تاریخی اور موجودہ اخراج کا تعین کیا جا سکے۔
اگر کوئی ملک ایسے نقصانات کا سامنا کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک یا ممالک کے گروہ کی جانب سے بین الاقوامی ماحولیاتی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے کے باعث ہوئے ہوں، تو عدالت کے اس فیصلے کا مطلب ہے کہ نقصان پہنچانے والے ممالک کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس کا نتیجہ معاوضے یا دیگر قانونی اقدامات کی صورت میں نکل سکتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے واضح کیا کہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والا نقصان متعدد اسباب، بشمول نجی شعبے کے اداروں جیسے کمپنیوں کی سرگرمیوں، سے ہو سکتا ہے، تب بھی ممالک قانونی طور پر ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔
دی ہیگ میں عدالت کے باہر مظاہرین نے جھنڈے اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر نعرے درج تھے جیسے ”اب مزید تاخیر نہیں، آج ہی ماحولیاتی انصاف”۔ دنیا کی اعلیٰ ترین عدالتمیں اس کیسکا دورانیہ چھ سال پر محیط تھا، جس کی قیادت بحرالکاہل کے ماحولیاتی خطرات سے دوچار خطے کے طلبا نے کی، اور اسے چھوٹے جزیرہ نما ملک وانوآتو نے عالمی سطح پر اٹھایا۔
عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وانوآتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، رالف ریگن وانو نے کہا”یہ ایک بہت مضبوط اور حوصلہ افزا رائے ہے، اس سے بہتر ہم نے توقع نہیں کی تھی“۔
انہوں نے مزید کہا ‘ہم ان نکات کو استعمال کر سکتے ہیں جب ہم اپنے شراکت داروں، خاص طور پر زیادہ اخراج کرنے والے ممالک سے بات کریں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ قانونی طور پر ہماری مدد کے پابند ہیں۔ یہ رائے ہمارے دلائل کو مضبوط بناتی ہے۔ یہ ہمیں ہر قسم کے مذاکرات میں مزید اثر و رسوخ فراہم کرے گی۔

واضع رہے کہ ستمبر سن 2019 میں بحرالکاہل کے ایک چھوٹے جزیرے والے ملک وانوآتو نے اعلان کیا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی پر آئی سی جے سے مشاورتی رائے طلب کرے گا۔
اس تحریک کی بنیاد نوجوانوں کی ایک تنظیم ”پیسفک آئس لینڈاسٹوڈنٹس فائیٹنگ کلائیمٹ چینج“ نے رکھی تھی۔
اس تنظیم نے خاص طور پر چھوٹے جزائر کی ریاستوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اجاگر کیا۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے اس گروہ نے کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ سن 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔
پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔
عدالت نے یہ فیصلہ ماحول اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا ہے۔
رکن ممالک متعدد ماحولیاتی معاہدوں کے فریق ہیں جن میں اوزون کی تہہ سے متعلق معاہدہ، حیاتیاتی تنوع کا کنونشن، میثاق کیوٹو، پیرس معاہدہ اور دیگر شامل ہیں۔
یہ معاہدے انہیں دنیا بھر کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کی خاطر ماحول کی حفاظت کا پابند کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول بہت سے انسانی حقوق سے استفادے کی پیشگی شرط ہے۔
چونکہ رکن ممالک حقوق کے بہت سے معاہدوں کے فریق ہیں اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے اقدامات کے ذریعے اپنے لوگوں کو ان حقوق سے استفادہ کرنے کی ضمانت مہیا کریں۔
واضع رہے کہ اقوام متحدہ کا چارٹر جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کو ‘آئی سی جے’ سے کسی مسئلے پر مشاورتی رائے طلب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اگرچہ رکن ممالک پر عدالتی آرا کی پابندی کرنا قانوناً لازم نہیں تاہم ان کی قانونی اور اخلاقی اہمیت ضرور ہوتی ہے اور ان آرا کے ذریعے متنازع معاملات کی وضاحت اور ممالک کی قانونی ذمہ داریوں کے تعین کے لیے بین الاقوامی قانون تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔
یہ ‘آئی سی جی’ کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس میں 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے ہیں اور 97 ممالک نے زبانی دلائل میں حصہ لیا۔
جس طرح اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی سائنسی رپورٹس موسمیاتی تبدیلی کے اسباب اور اثرات کو سمجھنے کے لیے ایک معتبر عالمی معیار بن چکی ہیں، اسی طرح عدالت کا یہ فیصلہ ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کیے گئے اقدامات یا ان کی کوتاہی کا جائزہ لینے کے لیے ایک واضح بنیاد فراہم کرتا ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے حقیقی طور پر تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔یہ فیصلہ اس امرکے لیے ایک نیا معیار قائم کرے گا کہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی (زہریلی گیسوں کے اخراج)سے نمٹنے کے لییکون سے اقدامات اٹھانے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ممالک کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے نئے راستے بھی کھولتا ہے جو زیادہ اخراج کرنے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں کر رہے۔