پاکستان کا فلڈ وارننگ سسٹم کمزور، کمیونٹیز تک بروقت اطلاع نہیں پہنچتی۔ کیا ہم تباہی سے پہلے وارننگ سسٹم کو مؤثر بنا پائیں گے؟
فرحین العاص
پاکستان میں فلڈ وارننگ سسٹم کی صورتحال
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی فرحین العاص) پاکستان میں فلڈ وارننگ سسٹم کے بر عکس ارلی وارننگ سسٹم کی حالت عرصے سے تشویشناک سمجھی جا رہی ہے۔
پچیس کروڑ آبادی والےملک پاکستان میں خودکار ٹیلی میٹری اسٹیشنز کی کمی ہے جو بروقت سیلاب وارننگ کے لیے ناکافی ہیں۔ تاہم صورتحال اور بھی کمزور ہے۔
ارلی وارننگ سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟
وفاقی فلڈ کمیشن کے مطابق ارلی وارننگ سسٹم صرف ٹیلی میٹری اسٹیشنز پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اس میں کئی آلات شامل ہیں۔
ان میں خودکار موسمیاتی اسٹیشنز، ایچ ایف ریڈیو سیٹ، ٹیلیمیٹری انسٹالیشنز اور ریڈار بھی آتے ہیں۔ مزید برآں، یہ آلات بارش، پانی کے بہاؤ، درجہ حرارت اور نمی کے اعداد و شمار ریکارڈ کرتے ہیں۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے پاس اس وقت آٹھ ریڈار ہیں جن میں سے پانچ سے چھ مکمل طور پر فعال ہیں۔ دوسری طرف، محکمہ کے پاس ملک بھر میں 150 آبزرویٹریز موجود ہیں۔ واپڈا کے پاس بھی تقریباً 200 آبزرویٹریز ہیں۔ دریں اثنا، ان سب سے جمع شدہ ڈیٹا ایک فلڈ فورکاسٹ سسٹم میں ضم کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ درست پیش گوئی ممکن ہو سکے۔
عالمی معیار بمقابلہ پاکستان
سن 2018 میں جرنل نیچرل ہیزرڈز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کا آبیاتی نیٹ ورک بہت کمزور ہے۔ یہاں اوسطاً ہر 400 کلومیٹر پر ایک اسٹیشن موجود ہے۔ اس کے برعکس، عالمی ادارہ برائے موسمیات کے مطابق پہاڑی علاقوں میں ہر 50 کلومیٹر پر ایک اسٹیشن ہونا چاہیے۔
اسی طرح، لیڈ پاکستان کی سن 2017 پالیسی بریف بھی یہی کہتی ہے کہ پاکستان میں صرف ایک اسٹیشن اوسطاً 400 کلومیٹر پر ہے۔ تاہم، عالمی معیار کے مطابق حساس علاقوں میں ہر 50 کلومیٹر پر اسٹیشن ہونا لازمی ہے۔ نتیجتاً، پاکستان کو سیلابی پیش گوئی کے نظام کو فوری طور پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کیااقوامِ متحدہ کا گلوبل اسٹاک ٹیک پاکستان کو موسمیاتی بحران سے بچا پائے گا؟
گرمی برقرار، بارش اور ژالہ باری کی پیشگوئی
ملک کے مختلف علاقوں میں تیز بارش کا امکان
ماہرین کی رائے اور حکومتی منصوبے
وفاقی فلڈ کمیشن کے افسر ظفر کے مطابق لاہور کا فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن ایک خصوصی یونٹ ہے۔ یہ یونٹ سیلاب کی پیش گوئی کی درستگی اور بروقت فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ مزید برآں، سن 2022 کے بعد نیشنل فلڈ ٹیلیمیٹری ماسٹر پلان تیار کیا گیا جس کے تحت 707 نئے اسٹیشنز لگانے کی تجویز دی گئی۔
واپڈا پہلے مرحلے میں 457 اسٹیشنز لگانے کا منصوبہ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے پی سی-ون پلاننگ کمیشن کو منظوری کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ تاہم، وفاقی فلڈ کمیشن کے سابق چیئرمین احمد کمال کے مطابق ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو کمیونٹیز تک براہِ راست پہنچ سکے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مواصلاتی ڈھانچہ نہیں ہے۔
قومی مرکز اور ریجنل سینٹرز کی ضرورت
احمد کمال کے مطابق ملک میں اس وقت صرف لاہور میں ایک قومی مرکز ہے جو پورے پاکستان کے لیے پیش گوئی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر صوبے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ریجنل سینٹرز قائم کیے جائیں۔ نتیجتاً مقامی سطح پر بروقت وارننگ ممکن ہو سکے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل ماسٹر پلان کے تحت سات سو سے زائد ٹیلی میٹری اسٹیشنز نصب ہونے چاہئیں۔ اس طرح ہر ندی نالے اور چھوٹے دریا کے پانی کی مقدار کا بروقت اندازہ لگایا جا سکے گا۔
بڑے سیلاب اور ان کے نقصانات
پاکستان نے بارہا تباہ کن سیلابوں کا سامنا کیا ہے جنہوں نے انسانی جانوں اور معیشت کو نقصان پہنچایا۔
سن 2010 کے سیلاب میں 62 اضلاع متاثر ہوئے۔ نتیجتاً 1,985 افراد جاں بحق ہوئے اور 20 ملین افراد متاثر ہوئے۔ مالی نقصان 43 ارب امریکی ڈالر تھا۔
سن 2022 کے سیلاب میں 94 اضلاع متاثر ہوئے۔ اس بار 1,739 جانیں ضائع ہوئیں اور 33 ملین افراد متاثر ہوئے۔ مالی نقصان 30 ارب امریکی ڈالر تھا۔
سن 2025 کے سیلاب میں 80 اضلاع متاثر ہوئے۔ تقریباً 1,100 افراد جاں بحق ہوئے، 12 سے 15 ملین متاثر ہوئے اور اربوں روپے کا نقصان رپورٹ ہوا۔
کمیونٹیز تک وارننگ کیوں نہیں پہنچتی؟
ماہرین کے مطابق سن 2010 ، 2022 اور 2025 کے سیلابوں نے واضح کر دیا کہ وارننگ کمیونٹیز تک مؤثر انداز میں نہیں پہنچتی۔ این ایف پی پی چہارم میں تجویز ہے کہ ریجنل فلڈ سینٹرز قائم کیے جائیں تاکہ مقامی سطح پر بروقت اطلاع دی جا سکے۔
وزارتِ ماحولیات کے ترجمان سلیم شیخ نے کہا کہ سن 2025 کے سیلاب میں بھی یہی ہوا۔ زیادہ تر لوگ اندھیرے میں رہے۔ ان کے مطابق اگر وارننگ عوامی زبان اور مقامی ذرائع جیسے ایف ایم ریڈیو اور مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے نہ پہنچے تو اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔ مزید برآں، اربن فلڈز کی شدت بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً، ارلی وارننگ سسٹم اور ڈرینج نیٹ ورک کو بہتر بنانا ناگزیر ہے۔
وفاقی فلڈ کمیشن کا کردار
وفاقی فلڈ کمیشن کو نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلانز (این ایف پی پیز) کی تیاری، ہم آہنگی اور عمل درآمد کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ان منصوبوں میں ڈیم، بیراج اور سپرز جیسے ساختی اقدامات شامل ہیں۔ دوسری طرف، غیر ساختی اقدامات میں فلڈ پلین میپنگ، بارش ناپنے کے آلات اور فلڈ فورکاسٹنگ سسٹم شامل ہیں۔
اب تک تین منصوبے مکمل ہو چکے ہیں:
این ایف پی پی اوّل ( سن 1978 تا 1988)
این ایف پی پی دوئم ( سن 1988 تا 1998 )
این ایف پی پی سوئم ( سن 1998 تا 2008 )
دریں اثنا، این ایف پی پی چہارم سن 2013 تا 2015 میں تیار ہوا اور منظوری بھی ملی۔ تاہم، فنڈز کی کمی کے باعث مؤثر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ سن 2022 کے بعد اسے اپڈیٹ کیا گیا ہے اور فیز اوّل کی منظوری ہو چکی ہے۔
نتیجہ
پاکستان میں فلڈ وارننگ سسٹم صرف چند اسٹیشنز تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک جامع انفراسٹرکچر کا تقاضا کرتا ہے۔ پچھلے بڑے سیلاب ظاہر کرتے ہیں کہ کمزور نیٹ ورک ایک قدرتی آفت کو انسانی المیے میں بدل دیتا ہے۔ نتیجتاً، فوری اقدامات ضروری ہیں۔ بصورتِ دیگر، مستقبل میں پاکستان کو مزید تباہ کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔