کراچی میں شدید بارشیں اربن فلڈنگ اور جانی و مالی نقصان کا باعث، ماہرین موسمیاتی تبدیلی کو شہر کے لیے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں
ایم جے کے
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بارشوں کی مقدار اور شدت میں اضافہ ہو چکا ہے،بارشوں کی وہ مقدار جوکئی دنوں میں برستی تھی اب چند گھنٹوں میں برس جاتی ہے۔
کیا شدید بارشیں کراچی کے لیے نیا خطرہ ہیں؟
موسمیاتی تبدیلی اور اربن فلڈنگ کا بحران
ماہرین کے مطابق دنیا کے سو ملکوں سے بڑا پاکستان کا سب سے بڑا اور گنجان آبادی رکھنے والا شہر کراچی بھی موسمیاتی اورر ماحولیاتی تبدیلیوں کے براہ راست نشانے پر ہے۔
اس شہر کے باسی جہاں ایک طرف فضائی آلودگی اور ہیٹ ویوز جیسے جان لیوا خطرات کا سامنا کر رہیہیں تو دوسری طرف شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی اربن فلڈنگ کا سامنا کرنے پر بھی مجبور ہیں۔
رواں مون سون سیزن کی شدید بارش کے باعث ایک مرتبہ پھر شہر قائد کے علاقے اور روڈ ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگے، محمکہ موسمیات کی جانب سے پیشگی اطلاع کے باوجود شہری آبادیوں میں کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں شدید جانی نقصان کے علاوہ کچی آبادیوں اور شہری علاقوں کے گھروں میں پانی داخل ہوگیا جس سے الیکٹرانکس، فرنیچر اور دیگر اشیاء کا نقصان بھی ہوا۔ موسلادھار بارشوں سے تین دنوں میں کراچی کی مارکیٹیں بند ہونے سے مجموعی طور پر 10 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ اس سال بارشیں معمول سے زیادہ ہوئی ہیں۔ برسات کے دوران 40 اموات ہوئی، جس پر ہم نے معافی مانگی مگر ہمارے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے پانی کو نکلنے کے لیے وقت چاہیے، جس کے لیے ہم نے کوششیں کی ہیں۔
تاہم واضع رہے کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے پیشگی اطلاع دینے کے باوجود کراچی شہر میں شدید بارشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے۔19 اگست کی صبح 6 بجے اور پھر دوپہر دو بجے سے رات گئے 12 گھنٹے تک جاری رہنے والی موسلادھار بارشیں جو 100 سے 200 ملی میٹر سے زیادہ ریکارڈ کی گئی وقفے وقفے سے اگلے تین دن تک جاری رہیجس کے باعث شہر قائد کے علاقے، روڈ اور گلیاں ما ضی کی طرح ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگے۔

شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارش کے سبب ان تین دنوں میں کرنٹ لگنے، دیواریں گرنے اور نالے میں ڈوبنے کے حادثات میں دو بھائیوں سمیت 20 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 13 افراد سے زائد زخمی ہوئے، کورنگی کازوے ٹریفک کے لیے کھولا نہ جاسکا، مختلف علاقوں اور شاہراہوں پر درجنوں موٹر سائیکل، رکشے اور گاڑیاں پانی اور گہرے گڑہوں میں پھنس کر رہ گئے، موٹر سائیکل سوار بارش کے پانی میں بہتے ہوئے دھکے لگا کر شیلٹر تلاش کرتے رہے، کئی مال بردار سوزوکی اور ہیوی ٹرانسپورٹ کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔
کراچی میں شدید بارشوں کا بڑھتا ہوا خطرہ
کراچی میں اربن فلڈنگ کی وجوہات
اس حوالے سے معروف اربن پلانر محمد توحید کا کہنا تھا کہ2020کے سیلاب کے دوران ہمیں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ کراچی کی سڑکوں کی صورتحال بہتر نہیں ہے، روڈ کی کنسٹرکشن میں ایک تو میٹریل کا مسئلہ ہے دوسرا یہ کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کا میٹریل بہتر ہے تو بھی اس کا سلوپ سہی نہیں ہے جو بارش کے پانی کو ایک جانب لے جا سکے۔
ان کا کہنا تھا ہمارے ہاں سڑک کو ڈرینج سے ملا دیا جاتا ہے جب کہ سیوریج اور برساتی نالوں کا نظام علحیدہ ہونا چاہیے۔ طوفانی بارش کے سبب کچی آبادیوں، شہری علاقوں کے گھروں اور مارکیٹ کی دوکانوں میں پانی داخل ہوگیا جس سے الیکٹرانکس، فرنیچر اور دیگر اشیاء کا نقصان بھی ہوا۔کراچی کے تاجروں کے مطابق موسلادھار بارش کے پیش نظر صرف ان تین دنوں میں مارکیٹیں بند ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر 10 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ماہرین کے مطابق، کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشیں کسی قدرتی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ کلائمٹ چینج کی ایک نمایاں علامت ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ اور غیر منصوبہ بند شہری ترقی نے کراچی کو ایک ایسے خطرناک مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں بارش کا ہر اسپیل شہری زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔
تاجر برادری کا کہنا تھا کہ موسلا دھار بارشوں نے ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی کو مفلوج کرکے رکھ دیا جس کے باعث مختلف مارکیٹوں میں کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ گئیں۔
تاہم کراچی میں جو مارکیٹیں بارشوں کے باعث متاثر ہوئی ان میں لیاقت آباد، حیدری، پاپوش نگر، ایمپریس مارکیٹ، طارق روڈ، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ، جامع کلاتھ، لائٹ ہاؤس، میڈیسن مارکیٹ، موتن داس، موبائل اور الیکٹرانکس مارکیٹس سمیت متعدد کاروباری مراکز تین دن تک مکمل یا جزوی طور پر بند رہے، متعدد تاجروں نے بتایا کہ بارش کا پانی دکانوں میں داخل ہونے سے لاکھوں روپے کا مال خراب ہو گیا بجلی کی عدم دستیابی نے بھی مسائل میں مزید اضافہ کر دیا۔
مقام تاجروں کا مزید کہنا تھاکہ دکانوں میں پانی بھرنے سے نہ صرف کاروبار متاثر ہوا بلکہ اب مرمت اور صفائی پر بھی بھاری اخراجات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ ایک دکاندار کے مطابق ”تین دن میں ہمارا کروڑوں کا نقصان ہو گیا، پانی دکان میں داخل ہوا سارا اسٹاک خراب ہو گیا۔ علاوہ ازیں تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر متاثرہ علاقوں کی صفائی اور نکاسی آب کا مؤثر انتظام کرے تاکہ آئندہ ایسی صورتحال سے بچا جاسکے۔
تاحال سرکاری سطح پر ریلیف یا نقصان کے ازالے سے متعلق کوئی واضح حکومتی اعلان سامنے نہیں آیا، جبکہ بعض شہری حلقے انتظامی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بارش کے پانی نے انفراسٹرکچر کی قلعی کھول دی۔

کراچی میں شدید بارشوں کے اثرات
شدید بارشوں کے بعد شہر کے متعدد رہائشی علاقوں میں سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں، گٹر اُبل پڑے اور بازاروں میں کیچڑ نے خریداروں کا راستہ روک دیا، کراچی کے کئی علاقے جن میں خاص کر نیا ناظم آباد اور گلشن اقبال کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ بارش کے باعث پانی ہمارے گھروں میں گھس آیا جس سے ہمارے گھروں کا فرنیچر اور دیگر قیمتی اشیاء خراب ہوگئیں۔
نیا ناظم آباد کی ایک رہائشی خاتون نے بتایا کہ پہاڑی سے ریلے کی شکل میں بارش کا پانی ہمارے گھروں میں گھس آیا جس سے گھریلو سامان کا شدید نقصان ہوا اور گھروں سے پانی نکالنے اور صفائی میں کئیدن لگے۔
گلشن اقبال کے ایک بزرگ رہائشی نے بتایا کہ موسلا دھار بارش اور بہتر نکاسی آب نہ ہونے کے باعث بارش کا پانی گٹر کے پانی کے ساتھ شامل ہوکر ہمارے گھروں میں گھس آیا جس پر فوری طور پر نہ بعد میں شہری انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی گئیجب کہ ان سے رابطہ بھی کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بارش ختم ہونے کے بعد پانی تو نکل گیا پر گھروں کی صفائی میں تین سے چار دن لگے۔یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کٹی پہاڑی کے علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ دیکھنے کو ملی پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جب کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس جگہ پر روڈ کی روانی معطل کر دی گئی تھی۔
شدید بارشوں کے باعث کراچی میں ہونے والے حادثات اور مین روڈ، گلیاں ندی نالوں میں تبدیل ہونے پر چیف منسٹر سندھ مراد علی شاہ، میئر کراچی مرتضی وہاب اور دیگر وزراء مختلف اوقات میں کراچی کی روڈوں پر نظر آئے اور عجیب منطق پیش کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے جس پر کراچی کی عوام اور صحافیوں نے مختلف ردعمل ظاہر کیا۔
کراچی کے زندہ دل لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت موٹر سائیکل سواروں اور کار سواروں اور دیگر گاڑیوں کی مدد کی جبکہ خواتین ورکرز کی جانب سے شکایات سننے کو ملی کہ چھٹی کا کہنے کے باوجود انہیں بڑی چھوٹی کمپنیز، فیکٹریز اور دفاتر میں بلا لیا گیا درخواست کے باوجود چھٹی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے واپسی پر انہیں گھر آنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے کئی علاقوں میں کئی گھنٹوں تک بجلی بھی غائب رہی۔کے الیکٹرک کے مطابق کراچی کے 2 ہزار فیڈرز بحال کر دیے گئے جبکہ 240 فیڈرز بند ہونے سے بجلی کی فراہمی معطل تھی۔
موسلادھار بارش کے باعث محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے اسکول، کالجز کی چھٹی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا تھا، اسکے علاوہ ٹریفک پولیس کے اہلکار اور شہر کے کچھ تھانوں سے ایس ایس ایچ اوز اپنی حدود میں نفری کے ہمراہ شہریوں کی مدد کرتے دکھائی بھی دیئے۔
وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے برسات کے دوران 40 اموات کی تصدیق کی، انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے صورتحال پر معافی مانگی مگر ہمارے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے پانی کو نکلنے کے لیے وقت چاہیے، جس کے لیے ہم نے کوششیں کی۔

اس حوالے سے موسمیاتی تجزیہ کار عبید نعیم نے بتایا کہ پاکستان بھر میں گزشتہ دنوں برسنے والی بارش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک تو مون سون ہواؤں کا کم دباؤ پاکستان کو متاثر کر رہا ہے اور ساتھ ہی مغربی ہواؤں کا سلسلہ بھی پاکستان میں اپنی شدت کے ساتھ داخل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں موسلا دھار بارش اور کلاؤڈ برسٹ اور سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
عبید نعیم نے مزید بتایا کہ پاکستان بھر میں آنے والے دنوں میں بارشوں کے موسلا دھار اسپیل مزید آسکتے ہیں، بارشوں کا یہ سلسلہ پاکستان بھر میں مزید 15 سے 20 دن تک جاری رہنے کا امکان ہے اور ستمبر کے شروع کے 10 یا 15 دن پاکستان بھر میں بارشیں تباہی بھی مچاسکتی ہیں۔
جبکہ شہری حکومت کی جانب سے اس حوالے سے بارش کے دنوں میں کوئی خاطر خواہ انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے نہ آگے دکھائی دے رہے ہیں ماسوائے ایمرجنسی اور دیگر کمیٹیاں بنانے کے۔
موسمیاتی تبدیلی: مستقبل کا خطرہ
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ
گلوبل وارمنگ کے باعث بارشوں کے پیٹرن بدل رہے ہیں۔
ہوگیا ہے۔ unpredictable مون سون مزید
پانی کے ذخائر کم ہونے اور شہری منصوبہ بندی کی کمی نے صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔
حل کیا ہے؟
محمد توحید کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں اب یہ امر انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ پورے شہر میں موجود واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی پانی اور سوریج کی لائنوں کو دوبارہ سے دیکھا جائے جہاں جہاں یہ بوسیدہ ہو چکی ہیں و ہاں انہیں اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔
اربن پلانر کا مزید کہنا تھا کہ 1996سے پہلے تک برساتی نالوں کا ایک علحیدہ نظام تھا جس میں 38بڑے برساتی نالے جس میں ملیر ندی میں شفاف پانی ہوتا تھا اس کے علاوہ لیاری ندی لیکن اب یہ سب نالے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
اسی طرح گجر اور اورنگی یہ سب صاف پانی کے دریا تھے اور ان میں مون سون سیزن میں صاف پانی ہوا کرتا تھااور اس کے ساتھ 510چھوٹے نالے لیکن اب یہ سب یا تو ختم ہوچکے ہیں یاان پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں۔
کیا اسے دیکھنا یاد ہے؟
ڈیم: کیا پاکستان کے لیے سیلابی متبادل حل ہے؟
کیا اسلام آباد ویٹ لینڈز منصوبہ پانی کا بحران حل کرپائے گا؟
موسمیا تی تبدیلی کے تناظر میں میں ہمیں ان سب چیزوں کو دوبارہ سے دیکھنا ہو گا اور نئی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی وگرنہ آنے والے موں سون میں صورتحال بد سے بد تر ہوتی جائے گی۔
وقت تیزی سے نکلتا جا رہا ہے موسمیاتی بحران ہمارے گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔اگلے برس آنے والے مون سون بارشوں کے اسپیل میں اضافے اور شدت کی پیش گوئی کی جا چکی ہے۔
دیکھنا یہ ہے صوبائی حکومت، شہری حکومت اوردیگر ادارے کون سے ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جو مون سون کی شدید بارشوں سے ملک کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے شہر کراچی کے باسیوں کو محفوظ رکھتے ہیں یا صورتحال جوں کی توں رہے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا