فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

مارگلہ ہلزکی  تباہی کی داستان ، بحالی ممکن مگر کیسے؟

مارگلہ ہلز

مارگلہ ہلز کے کچھ علاقے ہیوی ڈگریڈیڈ یا شدید خراب ہیں۔ ان کو دوبارہ بحال کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہاں بہت تباہی ہوچکی ہے۔

اسلام آباد (رپورٹ -نمائندہ خصوصی فرحین العاص)مارگلہ ہلز کے پہاڑ کبھی خاموشی سے سر بلند تھے، مگر آج ان کے دل کی دھڑکن انسانی قدموں کی گونج سے بھر گئی ہے۔ یہاں کے درخت، جانور اور ندی نالے، سب اس تبدیلی کی گواہی دے رہے ہیں جس کا آغاز انسان کی چھوٹی سی مداخلت سے ہوا تھا، اور آج یہ مکمل ماحولیاتی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔

اسلام آباد وائلڈ لائف حکام کے مطابق  مارگلہ ہلز نشینل پارک کے اطراف تقریباً 20 گاوں موجود ہیں۔جبکہ ایک  مطالعہ، جو “چائنیز جرنل آف پاپولیشن ریسورسز اینڈ انوائرنمنٹ” میں شائع ہوا ہے، مارگلہ ہلز کے ماحولیاتی نظام پر آبادیاتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔

 یہ تحقیق، جو ریسرچ گیٹ اور ٹیلر اینڈ فرانسس آن لائن پر دستیاب ہے۔

 خاص طور پر مقامی کمیونٹیز کی سطح پر انسانی سرگرمیوں کے ماحولیاتی نتائج کا جائزہ لیتی ہے۔

 اس کے مطابق مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے اندر اور اس کے آس پاس تقریباً 37 چھوٹی بستیوں اور دیہاتوں میں 92,000 سے 100,000 افراد آباد ہیں۔

دی نیوز انٹرنیشنل میں 3 اپریل 2018 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ان دیہاتوں میں ہر گھر میں اوسطاً 3 سے 4 مویشی موجود ہیں۔

 سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ تمام مویشی اپنی خوراک کے لیے مکمل طور پر علاقے کی قدرتی نباتاتی چادر پر انحصار کرتے ہیں۔

 اس کا مطلب ہے کہ یہ جانور پارک کے اندر چرتے ہیں- جس سے وہاں کی نباتات کو نقصان پہنچتا ہے اور مٹی کا کٹاؤ بڑھتا ہے۔

مارگلہ ہلز جی آئی ایس ڈیٹا

جی آئی ایس ڈیٹا کے مطابق 2004 سے 2022 تک مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 757 ایکڑ غیرقانوی آبادیاں آباد ہوگئی قائم ہوئیں۔

 جس کے بعد وہاں کی آبادی 90000 سے ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔

اور انسانی سرگرمیوں کے باعث پارک پری طرح متاثر ہوا- خاص طور پر سید پور جس میں ان سالوں کے دوران ٪71  اضافہ ہوا۔

اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تجاوزات کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 تک کل 757 ایکڑ (3.06 مربع کلومیٹر) رقبہ تجاوزات کی زد میں آ چکا ہے۔

 ان میں سے 147 ایکڑ (0.59 مربع کلومیٹر) رقبہ 2017 سے 2022 کے دوران قائم ہوا۔

جبکہ  309 ایکڑ (1.25 مربع کلومیٹر) رقبہ 2004 سے 2017 کے درمیان بنا۔

اور301 ایکڑ (1.22 مربع کلومیٹر) رقبہ 2004 تک متاثر ہوا۔

 نیشنل پارک کا کل پہاڑی علاقہ 30,088 ایکڑ (121.76 مربع کلومیٹر) پر مشتمل ہے۔

 اس دوران سیّدپور گاؤں میں تجاوزات کا رقبہ 2004 تک 62 ایکڑ تھا- جو 2022 میں بڑھ کر 106 ایکڑ ہو گیا- یعنی 71 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اسی طرح نورپور شاہان میں تجاوزات 2004 میں 139 ایکڑ سے بڑھ کر 2022 میں 211 ایکڑ تک پہنچ گئیں- جو 52 فیصد اضافے کے برابر ہے۔

مارگلہ ہلز

مقامی افراد کے مطابق متعلقہ حکام کی جانب سے کئی بار غیر قانونی آبادی کے خلاف کارروائی کی گئی اور کچھ علاقے ختم بھی کیے گئے۔

اس بارے میں ٖ فروزاں کی جانب سے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا گیا -تاہم ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصل نہیں ہوا۔

 جس  کے نتیجے میں ناجائز تعمیرات میں 50 فیصد کمی ہوئی۔

 سید پور کے ایک عمر رسیدہ مقامی شخص کے مطابق  2005 سے قبل یہاں تقریبا ہر گاوں صرف 400 سے 500 گھر تھے۔

 جبکہ جب 1960 اور 70 کے درمیان سید پور یہ گاوں صرف مندر تک محدود تھا- جبکہ آج یہ پہاڑوں تک پہچ گیا ہے۔

 اسی طرح نور پور شاہ ہان بھی کم و بیش اتنے ہی گھروں پر محیط تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مارگلہ ہلز میں اس وقت کوئی 30 سے 40 ہزار افراد ہوں گے۔

 جبکہ ہر گھر میں بڑے 3 سے 4 اور چھوٹے 2 سے 10 مویشی رکھنے کا رواج تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک

مارگلہ ہلز نیشنل پارک (ایم ایچ این پی) کا رقبہ تقریباً 30،088 ایکٹر ہے- جوتقریبا  .76121 مربع کلومیٹر کے برابر ہے۔

یہ پارک 1980 میں قائم کیا گیا تھا- اور یہ پاکستان کے قدیم ترین اور بڑے قومی پارکوں میں سے ایک ہے۔

مارگلہ ہلز


مارگلہ ہلز نیشنل پارک ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے- اور اسلام آباد و راولپنڈی کے سنگم پر پھیلا ہوا ہے۔

: یہ پارک تین اہم علاقوں پر مشتمل ہے

مارگلہ ہلز

راول لیک

شکرپڑیاں

آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ

پارک کے اندر کچھ انفرادی انواع ماحولیاتی تحفظ کی بین الاقوامی یونین ( آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ کے مطابق خطرے سے دوچار ہیں۔

 اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ پارک خود ایک محفوظ علاقہ ہے- لیکن اس کے اندر کے مخصوص حالات اور خطرات  مقامی پودوں اور جانوروں کو معدومیت کے قریب دھکیل رہے ہیں۔

 مثال کے طور پر، مارگلہ ہلز میں عام تیندوا اور پینگولن  کے لیے تحفظ کی کوششوں نے مثبت اشارے دکھائے ہیں- لیکن انہیں اب بھی عالمی سطح پر کمزور  یا خطرے سے دوچار انواع کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

گرے گورال ناپید ہوچکا ہے

اسی طرح 20 برس قبل یہاں گرے گورال بھی پایا جاتا تھا لیکن اب ختم ہو چکا ہے۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک ایک اہم قدرتی اثاثہ ہے- جسے چیلنجوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنا ہے۔

 اس کا مسلسل تحفظ اور اس کی حیاتیاتی تنوع کی کامیابی ان وسیع خطرات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے پر بہت زیادہ منحصر ہے۔

قدرتی تنوع کا فقدان

ایم ڈی ہیگلر بیلی پاکستان، سابق رکن اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ وقار ذکی کے مطابق مارگلہ ہلز میں ایک تہائی علاقے وہ ہیں۔

 جو وائلڈ لائف کو مناسب طور پر سپورٹ نہیں کر رہے۔ یہ علاقے یا تو زیادہ خراب ہو چکے ہیں یا قدرتی تنوع کا فقدان ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دوسرا تہائی وہ ہے جو “ماڈریٹلی ڈگریڈیڈ” ہے- یعنی درمیانے درجے میں خراب ہو چکا ہے۔

:یہ بھی پڑھیں

ڈیم: کیا پاکستان کے لیے سیلابی متبادل حل ہے؟

میرپورخاص کی پہلی خاتون سولر ٹیکنیشن، جس نے گاؤں کو روشنی دینا سکھایا

جہاں کچھ قدرتی فعل جاری ہے- لیکن کافی نقصان ہو چکا ہے۔ اگر اس کی مناسب حفاظت کی جائے تو یہ علاقے دوبارہ بہتر ہو سکتے ہیں۔

وقار ذکی کے مطابق تیسرا تہائی وہ علاقے ہیں- جو بہترین حالت میں ہیں اور جو ابھی تک قدرتی تنوع کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ٹریل 6 اور ٹریل 4 بہترین علاقے کی مثال ہیں۔

ہیوی ڈگریڈیڈ علاقے

“اب بات کرتے ہیں “ہیوی ڈگریڈیڈ” یا “شدید خراب” علاقوں کی۔ ان کو دوبارہ بحال کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

 کیونکہ وہاں سے زیادہ تر درخت، پودے اور دیگر قدرتی اجزاء غائب ہو چکے ہوتے ہیں۔ اور بعض نباتات تو مکمل طور پر ناپید ہو چکے ہوتے ہیں۔

ان علاقوں کی بحالی کے لیے کئی سالوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ ایسے علاقوں کو بحال کرنے میں تقریباً 15 سے 20 سال لگ سکتے ہیں۔”

رملی اور سید پورمارگلہ ہلز کے ہیوی ڈگریڈیڈ علاقے کی مثال ہیں۔

وقار ذکی کے مطابق دوسری طرف، “ماڈریٹلی ڈگریڈیڈ” علاقے پانچ سے 10 سال کے اندر بہتر حالت میں واپس آ سکتے ہیں اگر ان کی حفاظت کی جائے۔

” یہ علاقے کسی حد تک قدرتی افعال رکھتے ہیں- اور ان میں اگر مناسب اقدامات کیے جائیں تو قدرتی تنوع دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔”

غیر مقامی پودوں سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لنٹانا ایک غیر مقامی پودا ہے۔

جو خاص طور پر اس وقت تیزی سے پھیلتا ہے- جب زمین خالی ہو جاتی ہے۔

“مارگلہ ہلز میں اس کی بہتات کی ایک بڑی وجہ انسانی مداخلت ہے۔ جب مقامی لوگ اپنی پالتو گائیں اور بکریاں جنگل میں چَراؤ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

 تو وہ گھاس اور دوسرے مقامی پودے کھا جاتی ہیں۔ نتیجتاً زمین خالی ہو جاتی ہے۔

اور اس خالی جگہ کو لنٹانا اور گاجر بوٹی جیسے غیر مقامی پودے فوراً گھیر لیتے ہیں۔

اس طرح یہ نباتات مقامی پودوں کی جگہ لے کر پورے ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتی ہیں۔

ماہرماحولیات رفیع الحق، جو تحفظ و بحالی اتحاد برائے حیاتیاتی تنوع (سی آر اے بی) سے وابستہ ہیں، کے مطابق مارگلہ ہلز اب بھی 600 سے زائد اقسام کے پودوں اور چیتے، پینگولن، لنگور، اور 250 سے زائد پرندوں کی اقسام کے ساتھ حیاتیاتی تنوع سے مالا مال ہے۔

تاہم، موسمیاتی اور انسانی دباؤ کے امتزاج نے اس ماحولیاتی نظام کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ماہر ماحولیات بتاتے ہیں کہ ہمالیائی اوک اور چیڑ جیسے درخت نمی کی کمی اور کیڑوں کے حملوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

” قدرتی چشمے سوکھ رہے ہیں- اور مٹی کا کٹاؤ بے ترتیب بارشوں کے باعث بڑھتا جا رہا ہے۔ جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

جبکہ پرندوں کی ہجرت اور ایمفیبین (ایسے جانور جو خشکی اور پانی دونوں میں رہ سکتے ہیں)کی افزائش میں تبدیلی وسیع تر ماحولیاتی عدم استحکام کی علامت ہے۔”

منظم تحقیق کی ضرورت ہے،حکام

اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے حکام کے مطابق مارگلہ ہلز میں زیادہ تر پودے مقامی ہیں- اور غیر مقامی اقسام جیسے پیپر مل بیری اور لینٹانا کی موجودگی محدود ہے۔

 وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موسمیاتی اثرات کے سائنسی تعین کے لیے منظم تحقیق کی ضرورت ہے۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ پارک میں 38 ممالیہ، 350 پرندوں، 32 رینگنے والے جانوروں اور 9 ایمفیبین اقسام کی موجودگی ہے۔

مارگلہ ہلز کے موسمی حالات

مارگلہ ہلز میں  گزشتہ 10 برسوں میں موسم میں واضح تبدیلی آئی ہے۔

پہلے بارشیں زیادہ ہوتی تھیں،-گرمی کم تھی- اور سردی زیادہ پڑتی تھی۔ اب گرمی

کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اور بارشیں کم ہو گئی ہیں۔

پاکستان محکمہ موسمیات کے دس سالہ اعداد و شمار کےمطابق 2016میں اسلام آباد میں سالانہ بارش کا اوسط 1620.6 ملی میٹر تھا۔

مارگلہ ہلز

 جو 2024 میں کم ہو کر 1261.0 ملی میٹر رہ گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ، اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے- جو 2015 میں 27.7 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

اور 2024 میں 29.1 ڈگری جبکہ 2025 میں39سے 33 ڈگری تک پہنچ چکا

مارگلہ ہلز

ہے۔

ہواؤں کی سمت اور شدت

ہواؤں کی سمت اور شدت میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔

شدید ترین ہواؤں کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ 06 جنوری 2016 کو 65 ناٹ کی شمال مغربی ہوا اور 05 فروری 2022 کو 45 ناٹ کی ہوا اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئی۔

اسی طرح 10 سالوں میں آگ لگنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔

سالاوسط درجہ حرارت (°C)بارش (ملی میٹر)جنگلات میں آگ (واقعات)
201529.28803
202533.17505-6

یہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔

راولپنڈی کی پیر مہر علی شاہ زرعی یونیورسٹی کے محکمہ جنگلات و رینج مینجمنٹ کے محققین شاہد علی خان اور عامر سلیم نے 2022 میں “فارسٹ کور اینڈ کاربن اسٹاک کنسرننگ کلائمٹ چینج: مارگلہ ہلز نیشنل پارک، اسلام آباد، پاکستان کا مطالعہ” کے عنوان سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی۔

اس مطالعے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے تحت زمین کے استعمال میں تبدیلی اور جنگلات میں کاربن ذخائر کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لینا تھا۔

 اس تحقیق میں ریموٹ سینسنگ (RS) اور جغرافیائی معلوماتی نظام (GIS) ٹیکنالوجی کے ذریعے دو دہائیوں (1997 تا 2019) کے دوران زمینی استعمال، زمینی ساخت، ڈھلوان، سمت، اور بارش کے نمونوں کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا۔

نتائج کے مطابق مارگلہ ہلز نیشنل پارک (ایم ایچ این پی) میں زمین کے استعمال میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔


۔1997 میں گھنے جنگلات کا رقبہ تقریباً 7,262 ہیکٹر تھا۔

 بستیوں کا رقبہ 145 ہیکٹر، پتھریلی زمین 5,920 ہیکٹر، بنجر زمین 2,680 ہیکٹر، اور آبی ذخائر 38 ہیکٹر پر مشتمل تھے۔

سال دو ہزار پانچ تک بستیوں کا رقبہ 877 ہیکٹر بڑھ گیا۔ جبکہ گھنے جنگلات میں تقریباً 1,000 ہیکٹر کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

 جس سے جزوی جنگلاتی بحالی یا شجرکاری کی کوششوں کا عندیہ ملتا ہے۔ تاہم، آبی ذخائر میں تقریباً 37 ہیکٹر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

این ڈی وی آئی (Normalized Difference Vegetation Index) کے تجزیے سے ظاہر ہوا کہ پارک کا شمال مشرقی حصہ، جو 1997 میں سب سے زیادہ سرسبز تھا۔

دو ہزار پانچ تک نمایاں طور پر کم سبزہ زار میں تبدیل ہو گیا-جو شہری پھیلاؤ اور ماحولیاتی زوال کے بڑھتے دباؤ کی علامت ہے۔


سال دو ہزار انیس کے بارش کے اعداد و شمار میں اگرچہ بارش میں کچھ اضافہ ظاہر ہوا۔ لیکن اس نے مجموعی ماحولیاتی بگاڑ کے رجحان کو متوازن نہیں کیا۔

اس تحقیق میں مارگلہ ہلز میں 67 اقسام کے پودوں کی نشاندہی کی گئی- جو اس خطے میں اپنی نوعیت کی پہلی مفصل ماحولیاتی فہرست ہے۔

 ان میں اکیشیا موڈیسٹا، کوئیرکس انکانا، پائنس روکسبرغی، ڈوڈونیا وسکوسا، اولیہ فیرجینیا، اور زیزیفس موریٹیانا جیسی اقسام شامل ہیں۔

تحقیق کے مطابق جنگلات نہ صرف کاربن ذخیرہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں- بلکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

 اس لیے پائیدار زمینی استعمال اور موسمیاتی لچکدار منصوبہ بندی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

بگڑتا ماحولیاتی نظام: خطرے سے دوچار انواع

ڈاکٹر رفیع الحق کی مرتب کردہ “کریٹیکل فلورا” کے مطابق مارگلہ ہلز میں درج ذیل انواع شدید خطرات کا سامنا کر رہی ہیں:

نوعبنیادی خطراتاثرات
ہمالیائی اوکنمی کی کمی، غیر مقامی پودےبلند علاقوں کی طرف پسپائی
چیڑ کے درختکیڑوں کے حملے، جنگلاتی آگمٹی کا کٹاؤ، کاربن کا نقصان
ادویاتی جڑی بوٹیاںحد سے زیادہ چناؤ، موسمی خشکیمقامی نباتاتی علم کا زوال
برگد اور انجیر کے درختجرثومہ کشوں کی کمی، پانی کی قلتپھل خور جانوروں کے لیے خوراک کی کمی

خطرے میں پڑے جانور

ایشیائی تیندوا: اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو مقامی طور پر ناپید ہو سکتا ہے۔

انڈین پینگولن: غیر قانونی شکار کے باعث شدید خطرے میں۔

گرے لنگور: بیج پھیلانے والی اہم نوع، مگر رہائش گاہ سکڑ رہی ہے۔

مصری گدھ: مردہ جانوروں کی کمی سے خوراک کا بحران۔

ہمالیائی مونال: درجہ حرارت بڑھنے سے رہائشی دائرہ محدود۔

نالہ فریگ اور ایمفیبین: چشموں کے خشک ہونے سے خطرہ۔

مانیٹر چھپکلیاں، تتلیاں: مسکن اور پودوں کی کمی کے باعث زوال کا شکار۔

آب و ہوا اور انسان کا تباہ کن امتزاج

ماہرین کے مطابق شہری پھیلاؤ نے مارگلہ ہلز کے ماحولیاتی دباؤ کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

رہائشی منصوبوں اور سڑکوں نے جنگلی حیات کے قدرتی راستے کاٹ دیے۔

اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ کے باعث اسلام آباد کی گرمی نے پارک کے درجہ حرارت میں 2 تا 4 ڈگری کا اضافہ کیا۔

پلاسٹک، گندے پانی اور نائٹروجن آلودگی نے زمینی و آبی نظام کو نقصان پہنچایا۔

پانی کی کمی زیرِ زمین پانی کے حد سے زیادہ استعمال سے پیدا ہوئی۔

غیر منظم سیاحت نے بیجوں کی منتقلی اور کچرے کے ذریعے نظام کو مزید بگاڑا۔

ماحولیاتی نگرانی کی ناکامی

ڈاکٹر رفیع الحق کے مطابق:’’ ہم آنکھوں پر پٹی باندھ کر جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔”

انہوں نے مارگلہ ہلز کے تحفظ کے لیے جدید تجاویز پیش کیں۔

موجودہ محدود وسائل

کیمرہ ٹریپس: صرف 20 فیصد پارک کا احاطہ۔

سیٹلائٹ تصاویر: درختوں کے تناؤ کی ابتدائی علامات نہیں پہچان سکتیں۔

ہائیڈرولوجیکل اسٹڈیز: غیر منظم اور جزوی۔

عوامی مشاہدات: غیر مصدقہ اور غیر معیاری۔

مجوزہ نئی حکمتِ عملی

انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) سینسر نیٹ ورک: 50 اسٹیشنز، مائیکرو کلائمٹ اور نمی کی نگرانی کے لیے (لاگت: 1.2 لاکھ امریکی ڈالر)۔

شہری سائنس پلیٹ فارم : موبائل ایپ کے ذریعے حیاتیاتی ڈیٹا کا اندراج (لاگت: 25 ہزار ڈالر)۔

پیش گوئی تجزیاتی سافٹ ویئر : جنگلاتی آگ اور غیر مقامی پودوں کی پیشگی شناخت (لاگت: 40 ہزار ڈالر)۔

ڈیٹا کمانڈ سینٹر : سی ڈی اے، آئی ڈبلیو ایم بی، اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے لیے ریئل ٹائم ماحولیاتی نگرانی۔

قانونی پیش رفت اور عملدرآمد

“اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف مینجمنٹ ایکٹ 2024” نے غیر قانونی تعمیرات اور شکار پر سخت سزائیں مقرر کی ہیں (ایک ملین روپے جرمانہ اور 6 سال قید)،
: تاہم

شکار اب بھی جاری ہے۔

قانون میں موسمیاتی مخصوص شقیں شامل نہیں۔

بجٹ کی کمی سے جنگلی محافظوں کی بھرتی متاثر۔

عوامی آگاہی ناکافی ہے۔

حل: سائنس اور عوامی شمولیت کا امتزاج

قلیل مدتی اقدامات (0–2 سال)

مقامی خشک سالی برداشت کرنے والے پودوں کی شجرکاری۔

غیر قانونی شکار کی روک تھام اور نگرانی۔

مصنوعی آبی ذخائر اور واٹر کیچمنٹس کی تعمیر۔

درمیانی مدت (2–5 سال)

جنگلی حیات کے گزرگاہوں اور ایکو بریجز کی تعمیر۔

سیاحت کے لیے داخلے کی حد اور کوڑا کرکٹ زونز کا قیام۔

طویل مدتی (5+ سال)

جامعات کے ذریعے انواع کی ہجرت پر تحقیق۔

قانون سازی میں موسمیاتی موافقت کو شامل کرنا۔

شمولیتی تحفظ: انسان مرکز حکمتِ عملی

: تعلیم و آگاہی

ڈبلیو ڈبلیو ایف کا “گرین اسکول پروگرام” نوجوانوں میں ماحول دوستی پیدا کر رہا ہے۔

“نیچر واکس” اور شہری ورکشاپس سے عوامی شعور میں اضافہ۔

ڈیجیٹل مہمات جیسے #CleanHikingTrails نے رضاکاروں کو متحرک کیا۔

: کمیونٹی ایمپاورمنٹ

دیہی نوجوانوں کو ایکو-ٹورزم کی تربیت۔

لکڑی پر انحصار کم کرنے کے لیے متبادل روزگار۔

کمیونٹی مینجمنٹ کمیٹیوں میں عوامی نمائندگی۔

: رضاکارانہ سرگرمیاں

“ایڈاپٹ اے ٹریل” مہمات۔

درخت لگانے کی مہمات اور ری سائیکلنگ پروگرامز۔

: ڈاکٹر اعجاز احمد، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، نے خبردار کیا کہ

سن 1990 میں جنگلات کا رقبہ 5.7 فیصد تھا۔ جو سن 2021 میں 25.7 فیصد تعمیر شدہ علاقے میں تبدیل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ راول لیک اور شکرپڑیاں بھی شدید دباؤ میں ہیں۔

راوں برس کی ژالہ باری نے چیلوں اور فاختاؤں جیسے پرندوں کو ہلاک کر دیا۔ جبکہ سیاحتی کچرا ندیوں کو زہر آلود کر رہا ہے۔

: انہوں نے تجویز دی کہ

مقامی نباتات کی شجرکاری، چیک ڈیمز اور واٹر پونڈز کی تعمیر، گرین اربن پلاننگ اور فضلہ مینجمنٹ کے سخت نظام، مارگلہ ہلز کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔

ان کے مطابق تعلیم، عوامی شمولیت، اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو شرکتِ عامہ پر مبنی تحفظ کی مثال بنایا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں