پاکستان میں بڑھتی اسموگ نے صحت و معیشت کو خطرے میں ڈال دیاہے۔ جدید حل جیسے فوگ گنز، سینسرز اور سبز چھتیں امید کی نئی کرن ہیں۔
ڈاکٹر شہزادہ ارشاد

جنوبی ایشیا کی فضا میں جو کچھ تیر رہا ہے، وہ صرف دھند نہیں وہ ایک خاموش بحران ہے۔ یہ دھواں ہے، جو فصلوں کی آگ، بھٹوں کی راکھ، اور گاڑیوں کے دھوئیں سے جنم لیتا ہے۔ یہ صرف نظروں کو دھندلا نہیں کرتا، یہ پھیپھڑوں پر قبضہ کرتا ہے، سانس کو قید کرتا ہے، اور شہروں کو خاموشی سے زہر آلود کر دیتا ہے۔
یہ مضمون ایک سفر ہے،لاہور کی سڑکوں سے بیجنگ کے ٹاورز تک، لندن کی قاتل دھند سے دہلی کے لال قلعے اور سرخ الرٹ Red Alert تک۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کیسے دھواں سے لڑتی ہے، پالیسی کیسے ناکام ہوتی ہے، اور عوام کیسے جاگتے ہیں۔ مگر سب سے بڑھ کر، یہ ایک دعوت ہے کہ ہم اپنی فضا کو واپس لیں، اپنے سانس کو محفوظ کریں، اور اپنی زمین کو صاف کریں۔
کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا۔۔۔خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو ۔ امیدفاضلی
جنوبی ایشیا: جہاں دھواں کئی ملکوں کی شہریت رکھتا ہے
جنوبی ایشیا میں دھواں صرف آلودگی نہیں، یہ ایک سفارتی کردار ہے۔ بغیر پاسپورٹ کے سرحدیں پار کرتا ہے، بغیر ویزا کے شہروں میں داخل ہوتا ہے، اور کبھی کبھار فضائی حدود میں تناؤ بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ واحد عنصر ہے جو امرتسر سے لاہور ایک گھنٹے میں پہنچ جاتا ہے اور ہر سال سردیوں میں یہی کرتا ہے۔
انڈو-گنگا کے میدان، جو مشرقی پاکستان سے شمالی بھارت اور بنگلہ دیش تک پھیلے ہیں، دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں دھواں ایک موسمی روایت بن چکا ہے۔ پنجاب میں فصلوں کی آگ، لدھیانہ سے فیصل آباد تک صنعتی دھواں، اور دہلی و لاہور کی ٹریفک۔ سب مل کر ایک ایسا دھندلا پردہ بناتے ہیں جو سیٹلائٹ سے بھی نظر آتا ہے۔
میرتقی میرصاحب کی بصیرت دیکھیے کہ بہت پہلے ہی یہ سوال اٹھا دیاتھا کہ
ع۔ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟ اور اب بھی ان کی دیوان کا یہ شعرآج کی دلی، ڈھاکہ اور لاھور کی ہی گویا تصویر کشی کر رہا ہے۔
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک۔۔۔شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
موسمیاتی طور پر، یہ خطہ ”انورژن لیئرز” کا شکار ہے وہ فضا تہی جو آلودگی کو زمین کے قریب قید کر دیتی ہیں۔ کم ہوا، زیادہ نمی، اور دھواں کا شور،یہاں کی سردیاں ایک سموگ سوپ کی مانند ہیں۔اصحاب ذوق اسے ایک قاتل کاکٹیل کہہ لیں۔سفارتی طور پر؟ الجھن ہی الجھن۔ بھارت اور پاکستان سیٹلائٹ تصاویر پر ایک دوسرے کو کوستے ہیں۔ بنگلہ دیش خاموشی سے باقی دھواں برداشت کرتا ہے۔ SAARC اجلاسوں میں فضائی آلودگی پر بات ہوتی ہے، مگر نتائج اکثر اتنے ہی دھندلے ہوتے ہیں جتنی خود فضا۔

ہاں ٹیکنالوجی کے میدان میں کچھ قابل توجہ حرکت ہے۔ بھارت نے دہلی میں اینٹی اسموگ ٹاورز لگائے، فصلوں کے لیے بایوڈی کمپوزر آزمائے، اور الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دیا۔ پاکستان نے فوگ گنز متعارف کروائیں، اور AI سے جڑی فضائی نگرانی شروع کی۔ بنگلہ دیش گرین انفراسٹرکچر اور سستے سینسرز پر کام کر رہا ہے۔
اصل چیلنج؟ ہم آہنگی۔ دھواں سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتا، مگر ہماری پالیسیاں کرتی ہیں۔ جب تک جنوبی ایشیا فضائی آلودگی کو مشترکہ بحران نہیں سمجھے گا، حل بے ترتیب و منتشر ردعمل پر مبنی، اور بسا اوقات نمائشی ہی رہیں گے۔پھر بھی امیدبندھتی ہے کیونکہ۔ عوامی نگرانی، علاقائی تحقیقی تعاون، اور ٹیک اسٹارٹ اپس ایک نیا راستہ بنا رہے ہیں۔ اگر حکومتیں ایک گہری سانس لینے پر آمادہ ہوں (فرض کریں اور ہوا اجازت دے)، تو شاید وہ ان بادلوں میں مشترکہ حل تلاش کرہی لیں۔
عالمی اسموگ کہانیاں: لندن کی قاتل دھند سے بیجنگ کے صاف آسمان تک
اب اگر اسموگ کی بات چلی ہے تو کچھ ماضی قریب کی تاریخ کے دریچوں میں بھی جھانک لیا جاے۔اگر دھواں ایک ولن ہے، تو لندن اس کی ابتدائی کہانی ہے۔ سال تھا 1952۔ شہر، جو پہلے ہی اپنی دھند کے لیے مشہور تھا، ایک خطرناک دھند میں لپٹ گیا۔ کوئلے کی آگ، صنعتی راکھ، اور ضدی موسم نے مل کر ”گریٹ اسموگ” بنایا۔ایک زرد دھند جو گھروں میں گھس گئی، ٹرینیں روک دی، اور صرف پانچ دن میں 4,000 سے زائد جانیں لے گئی۔ یہ صرف دھند نہیں تھی۔ یہ پالیسی سازی کا ایک اہم موڑ تھا۔ برطانیہ کا ”کلین ایئر ایکٹ 1956” اسی سانحے کے بعد آیا۔
بیجنگ میں، اسموگ قومی شرمندگی اور عالمی سرخی بن گیا۔ 2013 میں شہر نے پہلا ”ریڈ الرٹ” جاری کیا۔ اسکول بند، پروازیں منسوخ، اور شہری ماسک پہننے لگےCOVIDسے پہلے ہی۔ مگر چین نے صرف انتباہ نہیں دیااس نے حل بھی نکالا۔ ہوا صاف کرنے والے ٹاورز بنائے، کوئلے پر پابندیاں لگائیں، صنعتیں منتقل کیں، اور الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دیا۔
لاس اینجلس، جو کبھی فوٹو کیمیکل اسموگ کا گڑھ تھا، نے کیٹالیٹک کنورٹرز، سخت گاڑیوں کے اخراج قوانین، اور پبلک ٹرانسپورٹ کی اصلاحات سے مسئلہ قابو میں کیا۔ آج بھی وہاں دھند ہے، مگر وہ ہر موسم کی سرخی نہیں۔میکسیکو سٹی نے، جو ایک بلند و بالا پیالے میں واقع ہے، نے سبز چھتوں، گاڑیوں کی پابندیوں، اور جدید فضائی پیش گوئی نظام سے بہتری لائی۔

سبق؟ واضح ہے
پالیسی سازی اور پھر اس کا نفاذ بہت اہم ہے۔لندن کی دھند نے قانون بنایا۔ بیجنگ کی دھند نے جدت پیدا کی۔ جنوبی ایشیا کی دھند کو صرف پریس کانفرنس نہیں، قابلِ عمل قانون چاہیے۔
ٹیکنالوجی اکیلی کافی نہیں۔فوگ گنز، ٹاورز، سینسرز طاقتور ہیں، مگر انہیں انتظامی و نظامی تبدیلی، صاف توانائی، اور شہری منصوبہ بندی کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔
عوامی دباؤ کام کرتا ہے،اوپر مزکورہرمثال میں عوامی غصہ نے کردار ادا کیا۔ جب سانس لینا خطرہ بن جائے، لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
اور سب سے اہم اور خوش آیند بات یہ ہے کہ اسموگ قابلِ حل ہے۔ یہ کوئی لعنت نہیں، یہ ایک نتیجہ ہے۔ اورہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ نتائج بدلے جا سکتے ہیں۔ ہمت، حکمت، اور انجینئرنگ کے کمال سے۔
ٹیکنالوجی کا محاذ: وہ ہتھیار جو ہوا کو صاف کرنے نکلے ہیں
اگر اسموگ ولن ہے، تو ٹیکنالوجی وہ سپاہی ہے جو نوزل، سینسر، اور جذبے سے لیس ہے۔ دنیا بھر میں شہروں نے عجیب و غریب آلات میدان میں اتارے ہیں۔ کچھ نفیس، کچھ تجرباتی، اور کچھ ایسے جیسے کسی انجینئر نے کافی پینے کے بعد بنائے ہوں۔ مگر سب کا مقصد ایک ہے کہ سانس کو محفوظ بنانا۔
فوگ گنز: دھند کے محافظ
روایتا تو ہمارے ہاں پانی کی توپیں آگ بجھاتی کم اور احتجاجی مظاہرین کے منتشر کرنے میں زیادہ استعمال ہوتی نظر آتی تھیں۔ لیکن حکومت پنجاب نے اس مرتبہ ایک روایت شکن بدعت کرڈالی ہے۔ تصور کریں ایک پانی کی توپ جو ہنگامہ فرو نہیں کرتی بلکہ گرد و غبار سے بھرپور آلودگی سے تحفظ دیتی ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر چلتی یہ گاڑیاں 30 مائیکرون کے قطرے افق پرچھڑکتی ہیں، جو پی ایم2.5 اور پی ایم10 جیسے ذرات کو زمین پر گرا دیتی ہیں۔ اے آئی سے جڑی، سیٹلائٹ سیمنسل ہدایت یافتہ، یہ گاڑیاں شہری فضا میں دراصل امید کا چھڑکاؤ کرتی نظر آرہی ہیں۔
ہوا صاف کرنے والے ٹاورز: آسمان کے پھیپھڑے
بیجنگ نے اپنی اسموگ کا جواب ایک ٹاور کی صورت میں دیا—328فٹ بلند، شمسی توانائی سے چلنے والا، جو آلودہ ہوا کو صاف کر کے واپس چھوڑتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اور علامت دونوں ہیں۔
فوٹو کیٹالیٹک فرش: وہ راستے جو کیمسٹری جانتے ہیں
ٹوکیو اور میلان میں کچھ فٹ پاتھ ایسے ہیں جو سورج کی روشنی سے نائٹروجن آکسائیڈ اور دیگر زہریلے مرکبات کو توڑ دیتے ہیں۔ یہ سڑکیں چلتے چلتے ہوا صاف کرتی ہیں اور شکایت بھی نہیں کرتیں۔
بھٹوں اور چمنیوں میں لگے سکربرز سلفر ڈائی آکسائیڈ، ذرات، اور بھاری دھاتوں کو روکنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ وہ خاموش محافظ ہیں جو آلودگی کو باہر نکلنے سے پہلے ہی قابو میں لے لیتے ہیں۔
سبز انفراسٹرکچر: قدرت کی واپسی
شہری جنگلات، عمودی باغات، اور سبز چھتیں صرف خوبصورتی نہیں،یہ طاقتوربھی ہیں۔ درخت آلودگی جذب کرتے ہیں، گرمی کم کرتے ہیں، اور ذہنی سکون دیتے ہیں۔
فضائی نگرانی کے سینسرز: ہوشیار نگہبان
سستے سینسرز، سیٹلائٹ ڈیٹا، اورIoTنیٹ ورک اب ہوا کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ صاف نہیں کرتے، مگر بے نقاب ضرور کرتے ہیں۔ اور بے نقابی، جوابدہی کی طرف پہلا قدم ہے۔
پالیسی اور عوامی شراکت: ہماری اسموگ حکمت عملی میں کمی کا عنصر
ٹیکنالوجی چھڑکاؤ کر سکتی ہے، دھواں روک سکتی ہے، اور پیش گوئی کر سکتی ہے۔ مگر قانون سازی، تعلیم، اور تحریک نہیں دے سکتی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آکر اکثر کہانی بکھر جاتی ہے، خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔
اور عوام بیچاری بقول شاعر یہ کہتی رہ جاتی ہے کہ۔
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا۔۔وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں۔۔وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا۔امجد اسلام امجد
شومیئی قسمت پاکستان میں فضائی پالیسی اکثرہنگامی ردعمل Fire Fightingپرمبنی رہی ہے۔ قوانین موجود ہیں، مگر عملدرآمد مفقود یا کمزور
حاصل کلام: صاف ہوا، صاف نیت، اور ایک مشترکہ عزم
دھواں قدیم ہے، مگر ہمارا جواب جدید ہونا چاہیے۔ فوگ گنز، سینسرز، اور سبز قطعات و چھتیں صرف آلات نہیں،یہ امید کے ہتھیار ہیں۔ مگر یہ ہتھیار تب ہی کارگر ہوں گے جب انہیں قانون، شعور، اور عوامی شراکت سے جوڑا جائے۔ہم اپنی فضا کو ٹھیکے پر نہیں دے سکتے۔ ہم اپنی سانس کو درآمدی حل سے نہیں بچا سکتے۔ ہمیں انجینئرز، محققین، سرمایہ کاروں، اور شہریوں کو ایک میز پر لانا ہوگاتاکہ ہم مقامی، سادہ، اور پائیدار حل تیار کریں۔ وہ حل جو ہماری گلیوں، ہمارے موسم، اور ہماری ثقافت سے ہم آہنگ ہوں۔
یہ بھی پڑھیں
ایشیائی ترقیاتی بینک، گرین کلائمیٹ فنڈ اور پاکستان میں گلیشیائی پانی کے تحفظ کا منصوبہ
رانو ریچھ کی منتقلی: سندھ حکومت کا غیر مقامی جانوروں کی امپورٹ پر پابندی کا اعلان
صفائی ایمان کا حصہ ہے۔ اور یہ شرم کی بات ہے کہ ہم اپنی گلیوں کا کوڑا، اپنی فضا کا زہر، اور اپنی زمین کی چیخیں نظر انداز کر رہے ہیں،جبکہ غیر ملکی کمپنیوں سے کیے گئیمہنگے معاہدے بھی ہمیں صاف نہیں کر پا رہے۔مگر ناکامی مقدر نہیں یہ ایک موڑ ہے۔ اور موڑ بدلے جا سکتے ہیں۔ ہمت، حکمت، اور ہم آہنگی سے۔
تو آئیے، اس مضمون کو صرف ایک تجزیہ نہ بننے دیں۔ اسے ایک منشور بنائیں۔ ایک عزم۔ ایک ایسا پیغام جو دھواں سے نہیں ڈرتا،بلکہ اسے صاف کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

