فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

موسمیاتی بحران عالمی صحت ایمرجنسی: بیلیم ہیلتھ پلان کیوں فیصلہ کن ہے؟

کوپ 30 کی صحت رپورٹ واضح کرتی ہے کہ کس طرح موسمیاتی بحران ایک عالمی صحت ایمرجنسی بنتا جا رہا ہے اور دنیا بھر کے اسپتالوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

کوپ 30 کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ موسمیاتی بحران عالمی صحت ایمرجنسی بن چکا ہے اور دنیا بھر میں ہر 12 میں سے ایک اسپتال بندش کے خطرے میں ہے۔

موسمیاتی بحران عالمی صحت ایمرجنسی بن چکا ہے، اور کوپ 30 کی نئی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ یہ بحران دنیا بھر کے اسپتالوں اور انسانی صحت کے نظام کو فوری خطرے میں ڈال رہا ہے۔
شدید گرمی، نئی وبائیں، اور موسمیاتی آفات کے باعث ہر سال لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں، جبکہ ہر 12 میں سے ایک اسپتال موسمیاتی تبدیلی سے براہِ راست بندش کے خطرے سے دوچار ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اب ایک عالمی موسمیاتی بحران اور صحت ایمرجنسی بن چکی ہے، جو ہر سال پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کو شدید گرمی کے باعث موت کے گھاٹ اتار رہی ہے اور دنیا بھر میں اسپتالوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

یہ انکشاف برازیل کے شہر بیلیم میں جاری ہونے والی ڈبلیو ایچ او کی بڑی رپورٹ میں کیا گیا۔ڈبلیو ایچ او اور برازیلی حکومت کی مشترکہ خصوصی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر بارہ میں سے ایک اسپتال موسمیاتی تبدیلی کے باعث بندش کے خطرے سے دوچار ہے۔

یہ رپورٹ تیزی سے گرم ہوتی دنیا میں صحت کے نظام کو محفوظ بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی یہ رپورٹ بیلیم ہیلتھ ایکشن پلان کے اجرا کے بعد سامنے آئی ہے جو کوپ 30 کا اہم اقدام ہے اور جس میں پہلی بار صحت کو براہِ راست موسمیاتی پالیسی کا مرکز بنایا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا مؤقف

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبرییسس نے کہا کہ “موسمیاتی بحران دراصل صحت کا بحران ہے، یہ مستقبل کی بات نہیں، یہ اب ہو رہا ہے”۔

یہ رپورٹ افراد اور صحت کے نظام پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے شواہد پیش کرتی ہے اور وہ حقیقی مثالیں بھی دکھاتی ہے کہ ممالک اپنی صحت کے نظام کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کر رہے ہیں یا کیا کر سکتے ہیں۔

یہ کیوں اہم ہے؟

عالمی درجہ حرارت پہلے ہی 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ چکا ہے۔رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ3.3سے 3.6 ارب لوگ شدید موسمیاتی خطرات والے علاقے میں رہتے ہیں۔اسپتال اب 1990 کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔

کوپ 30 کی صحت رپورٹ واضح کرتی ہے کہ کس طرح موسمیاتی بحران ایک عالمی صحت ایمرجنسی بنتا جا رہا ہے اور دنیا بھر کے اسپتالوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
کوپ 30 کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی بحران دنیا بھر میں صحت کے نظام کے لیے فوری خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

اگر کاربن میں تیزی سے کمی نہ کی گئی تو 2050 تک خطرے میں پڑنے والے صحت مراکز کی تعداد دوگنی ہو سکتی ہے۔خود صحت کا شعبہ بھی دنیا کے کل گرین ہاؤس گیس اخراج کا 5 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔صحت کے شعبے میں موسمیاتی موافقت کی سنگین کمی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ”ہیلتھ اڈاپٹیشن” اب بھی انتہائی ناکافی ہے۔صرف 54 فیصدقومی منصوبوں میں اسپتالوں کے موسمیاتی خطرات کا جائزہ شامل ہے۔30فیصدسے بھی کم منصوبے آمدنی کی عدم مساوات کو مدنظر رکھتے ہیں۔

صرف 20فیصد میں صنفی فرق کا خیال رکھا گیا ہے۔اور 1فیصدسے بھی کم منصوبوں میں معذور افراد شامل ہیں۔اگرچہ 2015 سے 2023 کے دوران ملٹی ہیزرڈ ارلی وارننگ سسٹمز دوگنا ہو چکے ہیں، لیکن ان کی رسائی اب بھی سب سے کم ترقی یافتہ ممالک اور چھوٹے جزیرہ ریاستوں میں ناکافی ہے۔

کیا کیا جا رہا ہے؟ 300 ملین ڈالر کی نئی سرمایہ کاری

35 سے زائد عالمی فلاحی تنظیموں کے اتحاد نے 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے تاکہ صحت اور موسمیات سے متعلق حلوں کو تیز کیا جا سکے۔Climate & Health Funders Coalition میں بلومبرگ فاؤنڈیشن،گیٹس فاؤنڈیشن،آئی کیا فاؤنڈیشن،راک فیلر فاؤنڈیشن،ویلکم ٹرسٹ سمیت دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔

یہ فنڈ انتہائی گرمی، فضائی آلودگی، موسمیاتی بیماریوں، صحت کے نظام کی مضبوطی اور ڈیٹا انٹیگریشن کے شعبوں میں جدید پالیسیوں اور تحقیق کے لیے استعمال ہوگا۔

اس کا پہلا مرحلہ بیلیم ہیلتھ ایکشن پلان کو سپورٹ کرتا ہے اور ایسے اقدامات پر مبنی ہے جو فوری طور پر جانیں بچا سکتے ہیں۔

”اقدامات فوری ہیں ”کوپ 30 کی ہیلتھ ایلچی کا پیغام

کوپ 30 میں صحت کی خصوصی ایلچی ایتھیل ماکیل نے یو این نیوزسے گفتگو میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اب ایک دور دراز خطرہ نہیں، بلکہ یہ صحت کے نظام کو اسی لمحے متاثر کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اسپتالوں کو ان بڑھتی ہوئی موسمیاتی آفات کے لیے کیسے تیار کریں؟اور صحت کے عملے کو کس طرح تربیت دیں کہ وہ گرمی یا سیلاب سے پیدا ہونے والی طبی ایمرجنسیز کا سامنا کر سکیں؟

انہوں نے برازیل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال ریو گرانڈی دو سل میں سیلاب کے بعد ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈینگی وبا سامنے آئی جو براہِ راست موسمیاتی تبدیلی سے جڑی ہے۔

بیلیم ہیلتھ پلان کے تین بڑے ستون

ماکیل کے مطابق منصوبے کے بنیادی تین ستون ہیں جن میں موسمیات و صحت کے مشترکہ ڈیٹا کا نظام، گرمی سے متعلق طبی ایمرجنسی کی پیشگوئی،موسمیاتی بیماریوں کی درست رپورٹنگ،مزاحمتی (Resilient) صحت کا نظام اور عملے کی تربیتپانی کی کمی، دل کی کمزوری اور گرمی سے متعلق امراض کی بروقت شناخت۔

کوپ 30 کی صحت رپورٹ واضح کرتی ہے کہ کس طرح موسمیاتی بحران ایک عالمی صحت ایمرجنسی بنتا جا رہا ہے اور دنیا بھر کے اسپتالوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
کوپ 30 کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی بحران دنیا بھر میں صحت کے نظام کے لیے فوری خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

تحقیق اور جدت

گرمی برداشت کرنے والی ادویات و ویکسین،صحت کے شعبے کی سپلائی چین سے آلودگی کم کرنا،اسپتالوں میں قابلِ تجدید توانائی کا استعمال بڑھانا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ خصوصاً ایمیزون میں یہ اقدامات اہم ہیں، جہاں جنگلات کی تباہی نئے نامعلوم وائرسوں کو بے نقاب کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

سندھ طاس معاہدہ: مرزا اور ایوب کی آبی کشمکش

ای پی آئی سندھ کی خسرہ و روبیلہ مہم کا ہدف 80لاکھ بچوں کی ویکسینیشن

کوپ30: وہ عالمی پیش رفت جو پاکستان میں رپورٹ نہیں ہوئیں

کیل کا کہنا تھا کہیہ منصوبہ صرف ایک خوبصورت دستاویز نہ بن جائے،حقیقی عمل ضروری ہے۔

”یہ منصوبہ صرف ایک خوبصورت دستاویز نہ بن جائے، حقیقی عمل ضروری ہے۔”

اپنا تبصرہ لکھیں