وردہ اعتصام

اعداد و شمار سے واضح ہے کہ سیلاب پاکستان
میں محض قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک افزودہ ماحولیاتی اور معاشی بحران بھی ہے۔
جدید دور میں تیزی سے بدلتے ماحولیاتی حالات نے قدرتی نظام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آج دریاؤں کی روانی اور گلیشیرز کے پگھلنے کا انداز بدل رہا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات نہ صرف زرعی پیداوار بلکہ انسانی بستیوں اور معیشت پر بھی واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ماضی میں بڑے ڈیمز اور بند باندھنے کو سیلابی آفات کا مستقل حل سمجھا جاتا تھا، لیکن جدید تحقیق نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بڑے ڈیمز اکثر عارضی ریلیف تو فراہم کرتے ہیں، مگر طویل المدتی پائیدار حل فراہم نہیں کر پاتے۔
ماہرین اب چھوٹے ڈیمز اور زیر زمین ذخائر کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، جو مقامی سطح پر پانی کے بحران کو کم کرنے، زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر رکھنے اور شہری علاقوں میں پانی کی کمی جیسے مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لاہور جیسے بڑے شہر میں اگر زیر زمین پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے بنائے جائیں تو زیر زمین پانی تک رسائی کے لیے سینکڑوں فٹ گہرائی تک بورنگ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک کے حکمران اکثر بڑے اور دکھاوے والے منصوبوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے منصوبے جنہیں لوگ دیکھ سکیں اور جو ان کے سیاسی ورثے کا حصہ بن سکیں۔ یہی سوچ بڑے ڈیمز کے حق میں زور دیتی ہے جبکہ خاموش لیکن پائیدار منصوبے، جیسے زیر زمین ذخائر، اکثر نظرانداز ہو جاتے ہیں۔
ہمارے خطے میں آنے والے زیادہ تر دریا ہمالیہ کے گلیشیرز سے جنم لیتے ہیں۔ یہ گلیشیرز گرمیوں میں پگھل کر نہ صرف پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھار شدید سیلابی صورتِ حال بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے برفباری کے ادوار میں کمی آ گئی ہے اور گلیشیرز بے وقت پگھلنے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں کلاؤڈ برسٹ جیسے شدید موسمی واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ صورتحال خطرناک بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی، کیونکہ اس کا اثر پورے خطے کی زراعت، معیشت اور روزمرہ زندگی پر پڑتا ہے۔
ایسے میں شنگھائی تعاون تنظیم ایک اہم پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتی ہے جہاں چین، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔
رواں ماہ چین میں اس تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم بھی شرکت کریں گے۔
یہ اجلاس پاکستان کے لیے سنہری موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ خطے میں ماحولیاتی تعاون کے نئے باب کا آغاز کرے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے تناظر میں ماحولیاتی تبدیلی اور خطے میں سیلابی تباہ کاریوں کا مسئلہ فوری اور مشترکہ اقدامات کا متقاضی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ارلی وارننگ سسٹم: قدرتی آفات کے خلاف پہلا دفاعی مورچہ
موسمیاتی تبدیلی اور باسمتی چاول: پاکستان کے لیے بڑھتا ہوا بحران
قومی اداروں جیسے این ڈی ایم اے،ایف ایف سی اور این آئی ڈی ایم کے اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کو ہر سال اوسطاً 1.8 بلین ڈالر کے مالی نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں، جبکہ صرف 2022 کے تباہ کن سیلاب میں 33 ملین افراد متاثر اور 1,700 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
اسی طرح ہمالیائی خطے کے گلیشیرز جیسےگنگوتری،چورابری اورڈرینگ ڈرنگ یزی سے پگھل رہے ہیں، جن کی سالانہ ریٹریٹ ریٹ 7 سے 34 میٹر کے درمیان ریکارڈ کی گئی ہے، جو خطے میں پانی کے ذخائر کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ماحولیاتی مسائل سرحدوں سے ماورا ہیں اور ان کا حل علاقائی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم اس وقت ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کر رہی ہے جہاں چین، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک مشترکہ حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔ ا
اجلاس میں خطے کے ممالک کے درمیان گلیشئر تحفظ کے لیے ایک خصوصی ادارے کے قیام کی تجویز نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کی سمت ایک مضبوط قدم ہوگی بلکہ پانی کے بحران، سیلابی تباہ کاریوں اور توانائی کے منصوبوں کے لیے ڈیٹا شیئرنگ، مشترکہ تحقیق اور پالیسی سازی کو بھی فروغ دے گی۔ خطے کی پائیدار ترقی اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ماحولیاتی خطرات کو اجتماعی دانش کے ساتھ حل کیا جائے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کی بقا کا سوال ہے۔
اگر پاکستانی وزیر اعظم اس اجلاس میں ہمالیہ کے گلیشیرز کے تحفظ کے لیے چین، بھارت اور پاکستان کے مشترکہ تعاون سے ایک خصوصی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کریں تو یہ نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کی سمت ایک بڑا قدم ہوگا بلکہ خطے میں اعتماد اور ہم آہنگی کی نئی راہیں بھی کھول سکتا ہے۔
یہ ادارہ تحقیق، منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کے ذریعے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے جو بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی نے جنم دیے ہیں۔
یہ لمحہ اس حقیقت کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اجتماعی دانش کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ پانی کا بحران، گلیشیرز کا پگھلنا اور شدید موسمی تبدیلیاں سرحدوں کو نہیں دیکھتیں۔
اگر آج ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلوں کے لیے یہ خطہ ایک شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل کا حل صرف قومی سطح پر نہیں، بلکہ خطے کے تمام ممالک کی مشترکہ کاوشوں میں پوشیدہ ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ایک مربوط حکمتِ عملی نہ صرف خطے کی پائیدار ترقی کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہے بلکہ دنیا کے لیے ایک کامیاب علاقائی تعاون کی مثال بھی قائم کر سکتی ہے۔
اعداد و شمار سے واضح ہے کہ سیلاب پاکستان میں محض قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک افزودہ ماحولیاتی اور معاشی بحران بھی ہے۔
اس میں قومی اداروں (این ڈی ایم اے, ایف ایف سی, این آ ئی ڈی ایم) کا کردار کلیدی ہے، لیکن موجودہ سلسلہ وار سیلابی پیٹرن، گلیشیرز کی تیزی سے کمی، اور موسمیاتی بے ترتیبی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم علاقائی اور تعاونی حکمت عملی اپنائیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کا جغرافیائی سیاسی پلیٹ فارم، جب ماحولیاتی ڈیٹا، گلیشیر ریسرچ، اور مقامی سطح کے آبپاشی حل کے ساتھ مربوط ہو، تو ہمیں ایک مربوط، موثر اور دیرپا ماحولیاتی اور سماجی ڈھانچہ مل سکتا ہے۔
اس طرح کی کوشش نہ صرف تحقیقی اعتبار سے مضبوط ہوگی بلکہ خطے کو مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے قابل بھی بنا سکتی ہے۔