ماحولیاتی رپورٹس

شدید گرمی بچوں کی صحت کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ

  یو این رپورٹ

زمین گرم ہو رہی ہے اور ہر جگہ ہر ایک کے لیے مزید خطرناک ہوتی جا رہی ہے

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی شدید گرمی بچوں کے لیے سنگین خطرات پیدا کر رہی ہے، اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی تازہ ترین رپورٹ میں اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 20 فیصد بچے ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں انہیں اپنے والدین کے مقابلے میں دوگنا زیادہ شدید گرم دنوں کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ جائزہ 1960 کی دہائی کے بعد 2020 سے 2024 تک کے عرصے میں درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کا تجزیہ کرتا ہے، خاص طور پر ایسے دنوں پر جب درجہ حرارت 35 ڈگری سیلسیئس (95 ڈگری فارن ہائیٹ) سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

شدید گرمی کا اثر: بچوں کی صحت پر براہ راست اثر

یونیسف کے مطابق، شدید گرمی کے دنوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کا اثر دنیا بھر میں تقریباً نصف ارب (46 کروڑ 60 لاکھ) بچوں پر پڑ رہا ہے۔ ان بچوں میں سے بیشتر ایسی بنیادی سہولتوں اور ڈھانچوں سے محروم ہیں جو شدید گرمی کو برداشت کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے خبردار کیا کہ شدید گرمی بچوں کی صحت، بہبود اور روزمرہ کی سرگرمیوں پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔

شدید گرمی کے اثرات والے علاقوں کی تفصیل

مغربی اور وسطی افریقہ دنیا کے وہ خطے ہیں جہاں شدید گرمی کے دنوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان علاقوں میں تقریباً 12 کروڑ 30 لاکھ بچے سال بھر میں 95 دنوں تک 35 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ گرمی کا سامنا کرتے ہیں۔ مالی، نیجر، سینیگال اور سوڈان میں یہ ایام خاص طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، 16 ممالک میں بچوں کو 1960 کی دہائی کے مقابلے میں زیادہ دنوں تک شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بعض علاقوں میں یہ تعداد ایک مہینے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

بچوں پر شدید گرمی کے اثرات

شدید گرمی بچوں کے لیے خاص طور پر خطرناک ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان کے جسم زیادہ تیز گرمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ اثرات بچوں میں غذائی کمی، غیر متعدی بیماریوں، اور وبائی بیماریوں جیسے ملیریا اور ڈینگی کو بڑھا دیتے ہیں۔ نومولود بچوں کے لیے یہ زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ ان کا جسمانی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ گرمی کو برداشت کر سکے، جس سے طبی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں جو ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔

حاملہ خواتین پر اثرات

حاملہ خواتین بھی شدید گرمی سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ یہ گرمی حمل کی پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے، جن میں زیابیطس، مردہ بچوں کی پیدائش، کم وزن والے نومولود بچے اور قبل از وقت پیدائش شامل ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی اقدامات

یونیسف نے تمام حکومتوں اور عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں تاکہ بچوں کو صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول فراہم کیا جا سکے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکنے کے لیے حکومتوں کو اپنی منصوبہ بندی میں مزید تیزی لانی ہوگی۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تمام ممالک کو اپنے موسمیاتی منصوبوں کی تیاری میں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور صحتمند دنیا فراہم کی جا سکے۔

دنیا کی گرمی میں اضافہ: آئندہ کے چیلنجز

یونیسف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2028 تک کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیئس تک پہنچنے کا امکان ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس امکان میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی موسمیاتی تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں زمین کی سطح کے قریب درجہ حرارت 1850 اور 1900 کے درمیان کی دہائیوں کے مقابلے میں 1.1 سے 1.9 ڈگری سیلسیئس تک بڑھ جائے گا، جس سے شدید گرمی کے اثرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔

شدید گرمی کا سدباب: بین الاقوامی تعاون کی ضرورت

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے جولائی میں ‘کال ٹو ایکشن’ کے عنوان سے ایک نیا اقدام شروع کیا، جس کا مقصد شدید گرمی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون بڑھانا ہے۔

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی شدید گرمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو خاص طور پر بچوں کی صحت کے لیے خطرہ پیدا کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور صحت مند ماحول فراہم کر سکیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں