ڈبلیو ایم او رپورٹ
شدید ترین گرمی دنیا بھر میں ریکارڈ توڑ رہی ہے، لاکھوں جانیں متاثر، جنگلات کی آگ اور فضائی آلودگی نے بحران مزید سنگین بنا دیا
“دنیا بھر میں شدید ترین گرمی نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول، معیشت اور زراعت پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ رجحان ماحولیاتی تبدیلی کی واضح علامت ہے۔
ہیٹ ویوز کے خطرناک نتائج
پچھلی دہائی میں گرمی کی شدت نے کئی ممالک میں قحط اور پانی کی قلت کو بڑھایا ہے۔ شہروں میں ہیٹ ویوز نے ہزاروں لوگوں کی جان لی ہے
مستقبل کے خدشات
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آنے والے سالوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے۔
یہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے۔ شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم ہو رہا ہے، جب کہ جنگلات میں آگ اور خراب فضائی معیار اس بحران کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔
عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2000 سے 2019 کے درمیان، شدید درجہ حرارت کی وجہ سے ہر سال تقریباً 4 لاکھ 89 ہزار اموات ہوئیں، جن میں سے 36 فیصد یورپ اور 45 فیصد ایشیا میں واقع ہوئیں۔
مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی کے صحت پر اثرات خاص طور پر شہروں میں زیادہ شدید ہوتے ہیں، جہاں ”اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ” یعنی گنجان شہری آبادی والے علاقوں کا اپنے دیہی گرد و نواح کے مقابلے میں زیادہ گرم ہو جانا شہری آبادی میں اضافے کے ساتھ مسائل کو بڑھا رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں درجہ حرارت میں ہونے والے مسلسل اضافے کے تناظر میں، عالمی موسمیاتی تنظیم نے بتایا کہ جولائی 2025 تاریخ کا تیسرا سب سے گرم جولائی رہا، جو صرف 2023 اور 2024 کے جولائی سے پیچھے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم انسانوں کی زندگی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔سے پیچھے ہے۔
یورپ میں گرمی کی لہر
دوسری جانب، اس ریکارڈ توڑ جولائی میں گرمی کی لہریں خاص طور پر سویڈن اور فن لینڈ کو متاثر کرتی رہیں، جہاں غیر معمولی طور پر طویل عرصے تک درجہ حرارت 30 ڈگری سیلسیس (86 فارن ہائیٹ) سے اوپر رہا۔
جنوب مشرقی یورپ کو بھی گرمی کی لہروں اور جنگلات میں آگ کا سامنا کرنا پڑا، اور ترکیہ میں ایک نیا قومی ریکارڈ قائم ہوا جب درجہ حرارت 50.5 ڈگری سیلسیس (122.9 فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا۔ یہ سب واضح ثبوت ہیں کہ شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم ہو رہا ہے

ایشیا، شمالی افریقہ، امریکہ
اسی دوران، ایشیا میں جولائی کے دوران سب سے زیادہ درجہ حرارت ہمالیہ، چین اور جاپان میں ریکارڈ کیا گیا، اور یہ شدید گرمی اگست تک جاری رہی۔ 5 اگست سے پہلے کے ہفتے میں مغربی ایشیا، جنوبی وسطی ایشیا، امریکہ کے جنوب مغربی حصے، شمالی افریقہ اور جنوبی پاکستان میں درجہ حرارت 42 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا اور بعض مقامات پر 45 ڈگری سیلسیس سے بھی اوپر پہنچ گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ، ایران کے جنوب مغربی اور عراق کے مشرقی حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے اوپر گیا، جس سے بجلی اور پانی کی فراہمی، تعلیم اور مزدوری کے شعبے بری طرح متاثر ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر، جاپان میں 5 اگست کو 41.8 ڈگری سیلسیس کا نیا قومی ریکارڈ قائم ہوا، جو صرف ایک ہفتہ پہلے کے 41.2 ڈگری سیلسیس کے ریکارڈ کو توڑ گیا۔
یہ تمام اعداد و شمار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم انسانی زندگی پر براہِ راست اثر ڈال رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
شمالی پاکستان میں گلیشیائی جھیل پھٹنے کا خطرہ
یورپی یونین کا 2040 کلائمیٹ ٹارگٹ متنازعہ
زہریلی گیسوں کا اخراج:عالمی عدالت کا تاریخی فیصلہ
مراکش نے 4 اگست کے ہفتے کے لیے 47 ڈگری سیلسیس (116 فارن ہائیٹ) تک کے درجہ حرارت کی وارننگ جاری کی۔کوریا نے بھی وسیع پیمانے پر ہیٹ وارننگ جاری کیں، اور چین کے کئی علاقوں میں اسٹیشن سطح پر درجہ حرارت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔جاپان میں 5 اگست کو 41.8 ڈگری سیلسیس (107.2 فارن ہائیٹ) کا نیا قومی ریکارڈ قائم ہوا، جو صرف ایک ہفتہ پہلے کے 41.2 ڈگری سیلسیس کے ریکارڈ کو توڑ گیا۔
آئندہ دنوں کا جائزہ
بیجنگ کے عالمی موسمیاتی مرکز نے پیش گوئی کی ہے کہ گرمی کی لہریں انہی علاقوں میں برقرار رہیں گی، ساتھ ہی آئیبیریئن جزیرہ نما اور شمالی میکسیکو میں بھی۔
ان علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 38 سے 40 ڈگری سیلسیس کے درمیان رہنے کا امکان ہے، جب کہ سعودی عرب، عراق، ایران، شمالی افریقہ اور امریکہ کے جنوب مغربی حصوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری سیلسیس سے اوپر جا سکتا ہے۔
نتیجتاً، ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم آنے والے دنوں میں مزید بڑھ سکتا ہے۔
کینیڈا میں جنگلات کی آگ
لہٰذا، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات صرف درجہ حرارت تک محدود نہیں رہے۔ کینیڈا اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین جنگلاتی آگ کے موسم کا سامنا کر رہا ہے، جس میں 66 لاکھ ہیکٹر رقبہ جل چکا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والا دھواں جولائی کے آخر اور اگست کے شروع میں کئی صوبوں اور امریکہ کی شمالی ریاستوں میں فضائی معیار کو خراب کر چکا ہے۔
اس کے علاوہ، قبرص، یونان اور ترکیہ کو ایسی جنگلاتی آگ کا سامنا کرنا پڑا جس سے انخلا اور ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکہ میں، ایریزونا کے گرینڈ کینیون نیشنل پارک میں آگ نے سیاحت کو متاثر کیا۔ یہ تمام شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم انسانی صحت اور ماحولیاتی نظام کو بیک وقت متاثر کر رہا ہے۔
خاموشی اب جواز نہیں
‘ڈبلیو ایم او’ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کو بیریٹ نے کہا ہے کہ شدید گرمی کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے لیکن آج کے دور میں سائنس، معلومات اور ٹیکنالوجی کی موجودگی میں خاموشی کوئی جواز نہیں رہی اور شدید گرمی سے ہونے والی ہر موت قابلِ تدارک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایم او ”ارلی وارننگ فا ر آل“ اقدام کے تحتلوگوں کو موسمی شدت کے واقعات سے پیشگی آگاہی فراہم کرنے کے اقدام کے تحت شدید گرمی سے متعلق بروقت انتباہ کے نظام کومضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
مزید برآں ادارہ اپنے بین الاقوامی اور مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر رکن ممالک کو گرمی اور صحت سے متعلق منصوبوں کی تیاری میں بھی مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ خطرات سے دوچار آبادی کو بروقت خبردار کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ ڈبلیو ایم او اقوام متحدہ کے ان دس اداروں میں شامل ہے جو شدید گرمی سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر 57 ممالک میں شدید گرمی کی بروقت اطلاع دینے والے نظام کو مضبوط کیا جائے تو سالانہ ایک لاکھ جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین پر زور دے رہے ہیں کہ شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم کو سنجیدگی سے لیا جائے اور فوری عملی اقدامات کیے جائیں۔
ڈبلیو ایم اواور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 57 ممالک میں شدید گرمی کی بروقت اطلاع دینے والے نظام کو مضبوط بنا کر سالانہ ایک لاکھ جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت اور عالمی موسمیاتی تنظیم کلائیمٹ اینڈہیلتھ مشترکہ پروگرام کی سربراہ اور گلوبل ہیٹ ہیلتھ انفارمیشن نیٹ ورک کی شریک رہنما جوائے شومیک گیلمو کا کہنا تھا کہ ”یہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے“۔