فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا نقصان

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کو ایف اے او رپورٹ کے مطابق 99 ارب ڈالر سالانہ نقصان، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور عالمی غذائی بحران۔

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان ہورہا ہے،موسمیاتی تبدیلی کے اثرات عالمی غذائی بحران کو بڑھا رہے ہیں۔

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کو ایف اے او رپورٹ کے مطابق 99 ارب ڈالر سالانہ نقصان، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور عالمی غذائی بحران۔

دنیا بھر میں کسانوں، ماہی گیروں اور دیہی معیشت سے وابستہ افراد کو گزشتہ تین دہائیوں میں قدرتی آفات کے نتیجے میں سالانہ 99 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ان حقائق کا خلاصہ اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کی حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

یہ اعداد و شمار نہ صرف عالمی غذائی نظام کی کمزوریوں کو آشکار کرتے ہیں بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب ایک سائنسی بحث نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے، جس کے اثرات ہمارے کھیتوں، دریاؤں، سمندروں اور ساحلی بستیوں پر براہِ راست محسوس کیے جا رہے ہیں۔

عالمی تناظر

موسم بدل رہا ہے، معیشتیں تباہ ہورہی ہیں

ادارے کے مطابق 1990 سے 2023 تک مجموعی نقصان کا 70 فیصد سے زائد حصہ انہی ممالک کو اٹھانا پڑا جو بنیادی طور پر زرعی اور ماہی گیری کے شعبے پر انحصار کرتے ہیں۔

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کو ایف اے او رپورٹ کے مطابق 99 ارب ڈالر سالانہ نقصان، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور عالمی غذائی بحران۔

خشک سالی، سیلاب، سمندری طوفان

سمندر کی سطح میں اضافہ، درجہ حرارت

کی بڑھتی لہر، اور غیر معمولی بارشیں اس

کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔

سب سے زیادہ نقصان ترقی پذیر خطوں میں ہوا جن میں جنوبی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا شامل ہیں۔

ایف اے اوکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی آفات کی شدت صرف قدرتی عوامل کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسانی سرگرمیوں جیسے غیر پائیدار زراعت، بے ہنگم اربنائزیشن، پلاسٹک آلودگی اور صنعتی اخراج جیسے عوامل نے بھی بڑی حد تک خطرات میں اضافہ کیا ہے۔

کسانوں پر اثرات

پیداوار میں کمی اور غذائی عدم تحفظ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فصلوں کو ہونے والا براہِ راست نقصان 400 ارب ڈالر سالانہ زرعی معیشت کو متاثر کرتا ہے۔گندم، چاول، مکئی، کپاس اور سبزیات جیسی بنیادی اشیا موسمیاتی آفات کی وجہ سے سخت متاثر ہو رہی ہیں۔

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کو ایف اے او رپورٹ کے مطابق 99 ارب ڈالر سالانہ نقصان، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور عالمی غذائی بحران۔
“سمندری طوفان اور غیر قانونی ماہی گیری سے متاثر ماہی گیر — عالمی سطح پر 99 ارب ڈالر نقصان کا اہم سبب”

عالمی سطح پر فصلوں کی پیداوار میں 6 سے 12 فیصد سالانہ کمی دیکھی گئی ہے۔یہ رجحان آنے والے برسوں میں مزید بدتر ہونے کا خدشہ ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں آبپاشی کے نظام، تحقیق اور کسانوں کے تحفظ کے لیے مضبوط پالیسیاں موجود نہیں۔

ماہی گیروں کے لیے بڑھتا خطرہ

سمندر کی بدلتی دنیا اور مچھلیوں کا مستقبل

ایف اے او کے مطابق ماہی گیری کے شعبے کو ہونے والے نقصانات کے اہم اسباب میں سمندر کی سطح میں اضافہ،بلیو کاربن ایکوسسٹمز (کورل ریف،مینگرو) کی تباہی،درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ جس سے مچھلیوں کی افزائش اور نقل مکانی کے رجحانات میں تبدیلی جیسے عوامل شامل ہیں۔

جب کہ شدید طوفان اور ساحلی کٹاؤ سے دنیا بھر کے 60 ملین سے زائد ماہی گیر براہِ راست متاثر ہیں، جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ساحلی افریقی ممالک سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کو ایف اے او رپورٹ کے مطابق 99 ارب ڈالر سالانہ نقصان، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور عالمی غذائی بحران۔
ایف اے او کی تازہ رپورٹ کے مطابق کسانوں اور ماہی گیروں کو قدرتی آفات کے باعث 99 ارب ڈالر سالانہ نقصان — موسمیاتی تبدیلی کا بڑھتا عالمی خطرہ۔

پاکستان کی معیشت کا نازک ستون: بڑھتے چیلنجز خطرناک موڑ کی زد میں

دباؤ کیوں بڑھ رہا ہے؟

پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس 10 ممالک میں شامل ہے۔ ایف اے او اور یو این ای پی کی مشترکہ رپورٹس کے مطابق, پاکستان کو ہر سال زرعی شعبے میں 3.5 سے 4 بلین ڈالر،ماہی گیری میں 1 بلین ڈالر کے قریب نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

اہم مثالیں

سن2022 کے سپر فلڈز نے 80 لاکھ ایکڑ کھڑی فصلوں کو تباہ کیا۔سندھ اور بلوچستان میں سمندری کٹاؤ سے 16 فیصد ماہی گیری کے مقامات ختم ہو چکے ہیں۔

دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں نمکینیت نے لاکھوں ایکڑ قابل کاشت زمین غیر پیداواری بنا دی۔

بلوچستان کے ساحل پر غیر قانونی ماہی گیری نے مقامی ماہی گیروں کی آمدنی 40 فیصد کم کر دی ہے۔

غذائی قلت کا خدشہ : تیار رہیں ؟

دنیا کب تک محفوظ ہے؟

اقوام متحد نے خبردارکیاہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کے موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2050 تک عالمی سطح پر 65 کروڑ افراد اضافی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

گلوبل ساؤتھ کے 70 فیصد ممالک میں خوراک کی قیمتیں دوگنا ہو سکتی ہیں جب کہ پانی کی قلت، کیڑوں کا حملہ، مٹی کی زرخیزی میں کمی اور خشک سالی مستقبل کا بڑا چیلنج ثابت ہوں گے۔

پاکستان جیسے ملک جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، یہ صورتحال مزید خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔چ

نقصان کیوں بڑھ رہا ہے؟

کمزوریاں پالیسیاں

ایف اے او نے اپنی رپورٹ میں چند بنیادی خامیاں بھی اُجاگر کی ہیں، مثلاََ ناکافی ارلی وارننگ سسٹم،زرعی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی میں کم ترین سرمایہ کاری،ساحلی علاقوں میں غیر منصوبہ بند آبادیاں، ماہی گیری کے غیر پائیدار طریقے،پانی کے ذخائر اور ڈیلٹا کی بحالی پر عدم توجہ اور ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا شامل ہے۔

مضبوط مستقبل کی کنجی: حل اور حکمت عملی

پاکستان میں فصلوں کا بیمہ عالمی معیار کے مطابق متعارف کرایا جائے۔ڈیجیٹل فارمنگ اور کلائمیٹ اسمارٹ ایگریکلچر،حساس علاقوں میں سینسر بیسڈ ٹیکنالوجی، ڈرونز، اور پانی کا کم استعمال والی فصلوں کی ترویج،ساحلی تحفظ کے منصوبے،مینگروکی بحالی، غیر قانونی ٹرالنگ پر سخت پابندی، اور ماہی گیروں کی آمدنی میں تحفظ کے ساتھ موسمیاتی مالیات تک رسائی۔

لاس اینڈ ڈیمج فنڈسے ترقی پذیر ملکوں کو فوری فائدہ پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدامات درکار ہیں جب کہ مقامی سطح پر کمیونٹی ریزیلینس پروگرام کے ذریعے آگہی مہمات چلانا۔

علاوہ ازیں سیلاب، خشک سالی اور سمندری طوفان سے نمٹنے کے لیے مقامی ہنگامی مراکز قائم کرنا ایسے اقدامات ہیں جو پاکستان کو ایک پائیدار مستقبل کی جانب لے جا سکتے ہیں۔

مستقبل کی جنگ سب سے بڑی جنگ

خوراک اور بقا کی جنگ شروع ہو رہی ہے؟

اقوام متحدہ کے ادارے کا سالانہ 99 ارب ڈالر کا نقصان صرف ایک عدد نہیں، یہ ہماری زمین کے زخمی ہوتے جسم کی چیخ ہے۔

دنیا بھر کے کسان اور ماہی گیر وہ فرنٹ لائن ورکرز ہیں جو ہماری روزمرہ خوراک کی بنیاد رکھتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کی موجودہ رفتار نہ بدلی تو مستقبل کی عظیم جنگیں زمین، پانی، خوراک اور بقا کے گرد گھومیں گی۔

یہ بھی پڑھیں

دنیا کی بڑھتی شہری توسیع اور کراچی

موسمیاتی تبدیلی میں شہروں کا کردار: سب سے بڑے مجرم یا امید کی کرن؟

پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں، وسائل، بجٹ ترجیحات اور ماحولیاتی حکمتِ عملی کو ازسرنو ترتیب دے۔

ورنہ آنے والی نسلیں ایک ایسے بحران کا سامنا کریں گی جہاں کھیت بنجر، سمندر خالی اور آسمان غضب ناک ہوگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں