فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل کیوں ہو رہا ہے؟

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل، زمین، پانی اور جنگلات کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والے کارکن عالمی سطح پر خطرات کا سامنا کر رہے ہیں

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل ہونے کی بنیادی وجوہات کارپوریٹ مفادات، زمین پر قبضے اور قدرتی وسائل کی تباہی کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل اب کسی ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک عالمی رجحان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔دنیا بھر میں وہ افراد جو زمین، پانی، جنگل اور ہوا کے حق میں بولتے ہیں، اکثر طاقتور معاشی مفادات، ریاستی اداروں اور نجی کمپنیوں کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔

بین الاقوامی تنظیم گلوبل وٹنس کی رپورٹس کے مطابق ہر سال اوسطاً 200 سے زائد ماحولیاتی کارکن قتل کیے جاتے ہیں جب کہ گزشتہ ایک دہائی میں 2,000 سے زائد افراد اس جدوجہد میں جان سے گئے۔

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل زیادہ تر ان ممالک میں ہوئیں جہاں قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں،قانون کمزور ہے،غربت اور عدم مساوات زیادہ ہے۔

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل، زمین، پانی اور جنگلات کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والے کارکن عالمی سطح پر خطرات کا سامنا کر رہے ہیں
دنیا بھر میں زمین کے محافظ ماحولیاتی کارکن طاقتور مفادات کے خلاف آواز اٹھانے پر جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں

یہ قتل کسی جذباتی ردِعمل کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ اکثر کارپوریٹ مفادات،ریاستی ترقیاتی منصوبوں اور مقامی اشرافیہ کے باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے سب سے خطرناک خطے لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ ہیں۔برازیل، کولمبیا، ہونڈوراس اور میکسیکو ماحولیاتی کارکنوں کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک ممالک سمجھے جاتے ہیں۔

یہاں ایمیزون کے جنگلات،زرعی زمین اور معدنی ذخائر عالمی منڈی کی طلب کا ایندھن بن چکے ہیں۔

برازیل میں جنگلات کے محافظوں، قبائلی رہنماؤں اور کسان یونینز کے رہنماؤں کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔

ہونڈوراس میں ڈیموں اور پانی کے منصوبوں کے خلاف آواز اٹھانا تقریباً موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل، زمین، پانی اور جنگلات کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والے کارکن عالمی سطح پر خطرات کا سامنا کر رہے ہیں
دنیا بھر میں زمین کے محافظ ماحولیاتی کارکن طاقتور مفادات کے خلاف آواز اٹھانے پر جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں

افریقہ میں تیل، گیس،نائجیریا، کانگو اور یوگنڈا میں تیل، گیس اور معدنی منصوبوں نے مقامی آبادی کو آلودگی، بیماری اور غربت کے سوا کچھ نہیں دیا۔

کین سا رو-ویوا جیسے کارکنوں کی پھانسی نے یہ ثابت کیا کہ جب ریاست اور کارپوریٹ مفادات یکجا ہو جائیں تو انصاف کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

فلپائن، بھارت، انڈونیشیا اور نیپال میں کوئلے کی کان کنی،بڑے ڈیم،پام آئل انڈسٹری کے خلاف مزاحمت کرنے والے درجنوں کارکن مارے جا چکے ہیں۔فلپائن میں ماحولیاتی کارکنوں کو باقاعدہ
”ریڈ ٹیگنگ”یعنی ریاست دشمن قرار دے کر قتل یا غائب کیا گیا۔

اس حوالے سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کئی ماحولیاتی تنازعات میں بین الاقوامی کمپنیاں،ترقی یافتہ ممالک کے بینک اور عالمی سرمایہ براہِ راست یا بالواسطہ ملوث ہوتے ہیں۔

جب کسی غریب ملک میں کوئی ماحولیاتی کارکن قتل ہوتا ہے تو سرمایہ محفوظ رہتا ہے،منصوبہ جاری رہتا ہے اور انصاف دفن ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی کارکنوں کا قتل اکثر بے نام، بے آواز اور بے انجام رہتا ہے۔

فلپائن، بھارت اور انڈونیشیا میں درجنوں ماحولیاتی کارکنوں کی ہلاکتوں کو ”ذاتی دشمنی“،”ڈکیتی“ یا ”حادثہ“ قرار دے کر ان کی فائل بند کر دی جاتی ہے۔

ماحولیاتی کارکنوں کا قتل، زمین، پانی اور جنگلات کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والے کارکن عالمی سطح پر خطرات کا سامنا کر رہے ہیں
دنیا بھر میں زمین کے محافظ ماحولیاتی کارکن طاقتور مفادات کے خلاف آواز اٹھانے پر جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں

پاکستان بظاہر ان ممالک میں شامل نہیں جہاں ماحولیاتی کارکن بڑی تعداد میں قتل کیے جاتے ہوں، مگر یہ تصویر ادھوری ہے۔ یہاں مسئلہ قتل سے زیادہ خاموشی، دباؤ اور خوف کا ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی کارکنوں کو تین بڑے خطرات لاحق ہیں جن میں قانونی تحفظ کی کمی،ریاستی اداروں کی غیر سنجیدگی اور میڈیا کی خاموشی۔

بلوچستان میں معدنی وسائل،ساحلی ترقی اور توانائی کے منصوبے مقامی آبادی کے پانی، چراگاہوں اور زمین کو متاثر کر رہے ہیں۔ جو لوگ سوال اٹھاتے ہیں وہ اکثر،لاپتہ،ہراساں یا سماجی طور پر الگ تھلگ کر دیئے جاتے ہیں۔

سندھ میں کوئلہ، صنعتی آلودگی اورپانی کی قلت پر بات کرنے والے کارکنوں کو ترقی کادشمن کہہ کر دبایا جاتا ہے۔

انڈس ڈیلٹا میں ماہی گیروں کے حقوق پر آواز اٹھانا اب بھی ایک خطرناک عمل ہے۔

گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں ڈیم،جنگلات اور معدنی منصوبے مقامی ماحول اور ثقافت کو متاثر کر رہے ہیں، مگر مزاحمت کو ریاستی مفاد کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں پانی، زمین،خوراک اور توانائی پر تنازعات بڑھیں گے، اور اس کے ساتھ ہی ماحولیاتی کارکنوں کے لیے خطرات بھی کیوں کہ یہ محض درخت بچانے کی جنگ نہیں، بلکہ حقِ زندگی،حقِ صحت اور حقِ مستقبل کی جنگ ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ ماحولیاتی کارکن کیوں مارے جا رہے ہیں؟ کیونکہ وہ ترقی کے بیانیے پر سوال اٹھاتے ہیں،منافع اور قدرت کے تضاد کو بے نقاب کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ ترقی اگر انسان اور ماحول کو مار دے تو وہ ترقی نہیں، تباہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان کے پہاڑ پگھل گئے تومستقبل کیا ہوگا؟

گلوبل اینوائرمنٹ آؤٹ لک رپورٹ: زمین کے ماحولیاتی توازن پر عالمی انتباہ

ماحولیاتی کارکنوں کی قبریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ یہ جنگ درختوں کی نہیں،یہ جنگ مستقبل کی ہے۔

اگر آج زمین کے محافظ غیر محفوظ ہیں تو کل صحافی،اساتذہ،اور عام شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

سوال یہ نہیں کہ کتنے ماحولیاتی کارکن مارے گئے،سوال یہ ہے کہ ہم نے کتنی بار خاموش رہ کر قاتلوں کا ساتھ دیا؟

اپنا تبصرہ لکھیں