فروزاں فروزاں کے مضامین

جب کھیت زہر اُگلنے لگیں

خیبر پختونخوا میں کاشتکار کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا سپرے کرتے ہوئے، جس سے انسان، مویشی اور ماحول متاثر ہو رہے ہیں

پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ 70ہزار میٹرک ٹن کیڑے مار ادویات کا استعمال انسان، مویشی اور زراعت کا خاموش زہر جو ماحول اور صحت دونوں کو کھا رہا ہے۔

خیبر پختونخوا میں کاشتکار کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا سپرے کرتے ہوئے، جس سے انسان، مویشی اور ماحول متاثر ہو رہے ہیں

کیڑے مار ادویات کا استعمال، خیبر پختونخوا کے کسانوں کے لیے فصلوں کو کیڑوں اور بیماریوں سے بچانے کا عام طریقہ بن چکا ہے۔ بارش کے بعد کیڑوں کے حملے کے پیش نظر فصلوں پر کیمیکل اسپرے کیا گیا جس کی وجہ سے اپنے بیٹے کے ہمراہ ساٹھ سالہ محمد سیلم نے اپنے مویشوں کو چار دن تک کھیتوں اور باغات سے دور رکھا۔

واضح رہے کہ بارش کے بعد فصلوں پر کیمیکل اسپرے کے اثرات نے انسانی صحت اور جانوروں کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں کاشتکار کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا سپرے کرتے ہوئے، جس سے انسان، مویشی اور ماحول متاثر ہو رہے ہیں

محمد سیلم نے بتایاکہ کئی بار اسپرے

کے فوری بعد کھیتوں سے مویشیوں کو

چار ہ کھلانے کے بعد وہ بیمار ہوگئے جن

کو ادویات فراہم کی جبکہ کچھ کی

اموات بھی واقع ہوئیں۔

چالیس سالہ محمد جاوید نے چار باغ کے علاقے میں دو ایکڑ پر شفتالو اور ایک ایکٹر پر پیا ز کا فصل کاشت کی جوکہ تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔

اُنہوں نے کہاکہ زیادہ پیداور کے حصول اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے فصل، سبزی، باغ اور اجناس پر ماضی کے مقابلے میں کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔

محمد جاوید نے کہاکہ سیلاب، خشک موسم اور بارش کے بعد مختلف قسم کے بیماریاں اور حشرات کے حملے فصل پر ماضی کے مقابلے میں کافی بڑھ چکے ہیں جن کی روک تھام کے لئے کیڑے مار ادویات یاکیمکل کا استعمال کیاجاتاہے۔

اُنہوں نے کہاکہ شفتالو کے پودے پر سال بھر میں کم از کم آٹھ جبکہ زیادہ سے زیادہ چودہ اسپرے کئے جاتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں کاشتکار کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا سپرے کرتے ہوئے، جس سے انسان، مویشی اور ماحول متاثر ہو رہے ہیں
خیبر پختونخوا کے کھیتوں میں فصلوں پر کیڑے مار ادویات کے بڑھتے استعمال سے انسانی صحت، مویشیوں اور ماحولیاتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف سوائلاینڈ پلانٹ نیوٹریشن ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ زرعی پیداور پر کیڑے مار ادویات اور کھاد کے اثرات پر کام کررہی ہے۔

ادارے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فریدہ انجم نے بتایاکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے فصلوں میں بیماری اور ماحول میں کیڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے۔جبکہ کیڑوں کی مدافعت بھی مظبوط ہوچکی ہے۔

اب ان کیڑوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ہمارے زمیندار زیادہ مقدار میں کیڑے مار ادویات کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس عمل کی وجہ سے ادویات کی باقیات پودوں، مٹی اور پانی میں رہ جاتی ہیں، ان کو استعمال کرنے سے جانوروں اور انسانوں کی جانوں کے لئے خطرے کا سبب بنتا ہی جو خارش سے لیکر کینسر جیسے مرض کا سبب بن سکتا ہے۔

زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کے حوالے سے پاکستان جرنل آف ایگریکلچر میں شائع تحقیق کے مطابق، مالاکنڈ ڈویژن کی کل 26 یونین کونسلوں میں 72 باغات کی گئی پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ شفتالو کی 12 اقسام کاشت کی جا رہی ہیں جن سے پیدوار کے حصول کے لئے کل 28 مختلف کیڑے مار ادویات استعمال ہو رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا میں کاشتکار کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا سپرے کرتے ہوئے، جس سے انسان، مویشی اور ماحول متاثر ہو رہے ہیں
خیبر پختونخوا کے کھیتوں میں فصلوں پر کیڑے مار ادویات کے بڑھتے استعمال سے انسانی صحت، مویشیوں اور ماحولیاتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 98.6 فیصد کاشتکار اس بات سے ناواقف تھے کہ کیڑے مار ادویات کب استعمال کرنی چاہئیں۔ مزید بتایا گیا کہ کیمیائی ادویات کے اثرات جلد اور سانس کے ذریعے جسم کے اندار داخل ہوتے ہیں جوکہ جلد سے لے کر کیسنر جیسے خطرناک بیماری کا سبب بن رہے ہں۔

زراعت کے مطالعے میں متبادل طریقوں سے بیماریوں پر قابو پانا اور کیڑے مار ادویات کے محفوظ استعمال سے متعلق آگاہی پروگرام شروع کرنے کی اہمیت کو اجاگرکیاگیا۔

شریف اللہ سوات کی تحصیل مٹہ میں کاشتکاروں کے تنظیم کے سربراہ ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ باقی علاقوں کے نسبت سوات میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیادہ محسوس کیے جاتے ہیں جبکہ پچھلے چند سالوں میں درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ ہوا ہےکہ پورے علاقے میں سیب کی پیدوار ہی ختم ہو چکی ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیب کی پیدوار کے لئے سرد آب ہوا کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اُنہوں نے کہاکہ فی الحال سیب کی جگہ شفتالو نے لی ہے تاہم باقی پودوں کے نسبت ان میں زیادہ بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور ان سے جلد کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔

شریف اللہ کے بقول پچھلے چند سالوں سے شدید قسم کے ژالہ باری ہورہی ہے جس سے کاشتکار بھاری مالی نقصانبرداشت کر رہےہیں۔

اُنہوں نے مزید بتایاکہ شفتالو پر سردی کے موسم میں تین جبکہ پھول لگنے سے لیکر پیداور کے حصول تک مزید پانچ سے آٹھ اسپرے کیے جاتے ہیں۔

محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے مطابق، پورے صوبے میں 83لاکھ 66ہزار 925ہیکٹرز زمین ریکارڈ پر موجو ہے جن میں 18لاکھ 21ہزار749ہیکٹرز زمین زیر کاشت ہے۔

مذکورہ اعداد شمار میں 16ہزار 475ہیکٹرز پر سبزی اور 7ہزار 652ہیکٹرز پر میوجات کاشت کی جاتی ہیں۔ سالانہ 1لاکھ 80ہزار ٹن سبزی اور 60ہزار787ٹن میوجات پیدا ہوتے ہیں۔

کیڑے مار ادویات کے استعمال کے بارے میں آگاہی

کاشتکار صادق اللہ نےبتایاکہ جب بھی فصل پر کسی بھی بیماری کا حملہ ہوتاہے تو وہ قریب بازار میں زرعی ادویات کے دوکان میں فصل کا نمونہ یا تصویر لے جاتے ہیں جہاں پر دوکاندار اسپرے کے لئے دوائی تجویز کرتاہے اور طریقہ استعمال کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔

اُنہوں نے بتایاکہ کاشتکار وں کو معلوم ہی نہیں کہ محکمہ زراعت اس حوالے سے اُن کے بہتر رہنمائی کرسکتاہے۔

صادق اللہ کے بقول پودوں پرا سپرے کرنے کے بعد اُن کو چند دونوں تک گلے میں شدید درد، جلد پر خارش، آنکھوں میں سوجن اور سر درد محسوس ہوتا ہے جبکہ کھانے پینے کو بھی دل نہیں چاہتا۔

شریف اللہ نے بتایاکہ کاشتکاربیماری کے خاتمے کے لئے اپنے قریبی بازاروں سے ادویات خریدلیتے ہیں لیکن ان کو اس بات سے بھی نا بلد ہیں کہ خریدی گئی دوا اصلی ہے نا نقلی؟

انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار بیماری ختم ہونے کے بجائے نہ صرف اُس میں اضافہ ہوتاہے بلکہ پودوں یا فصل کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر محمد شاہد سوات میں محکمہ زراعت کے شعبہ تحقیق میں آفسر کے حیثیت سے خدمات سرانجام دیں رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھادوں کے مناسب اور بروقت استعمال کے حوالے سے کاشتکاروں میں آگاہی کی کمی ہے۔

ڈاکٹر محمد شاہد کا کہنا ہے کہ جب کاشتکار کو کس بھی قسم کامسئلہ درپیش ہو تواُن کو چاہیے وہ محکمہ زراعت توسیع یا تحقیق کے شعبے کے ساتھ رابطہ کریں تاکہ اُن ککی بہتر طریقے سے رہنمائی ہوسکے۔

اُنہوں نے مزیدکہاکہ عموماََکاشتکار اپنے تجربے یا دوکاندار کے مشورے سے ادویات لیکر اُس کو استعما ل کرتاہے جوکہ فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتاہے۔

اُنہوں نے کہاکہ دوکاندار کے پاس زرعی ادویات کے حوالے سے کوئی سند نہیں ہوتی اور وہ ایک دوائی کے بجائے اپنی دوکانداری چلانے کے لئے مزید ادویات دے دیتا ہے۔

زرعی پیداور پر کیمیائی کھاد او ر کیمیکل اسپرے کا اثر

موجودہ وقت میں زرعی شعبے سے کمرشل پیدوار کاحصول کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھادو ں کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

شریف اللہ نے بتایاکہ مارکیٹ میں ڈی اے پی ساڑھے تیراہ ہزار جبکہ یوریاپانچ ہزار وپے بوری ہے جو ہمسایہ ممالک کی بانسبت کافی زیادہ ہے۔

اُنہوں نے کہاکہ کمزور مالی حالت کے بناء پر کاشتکار پچاس فیصد سے بھی کم کھا د کا استعمال کرتاہے۔ شاید فصلوں او ر باغات میں بیماریوں کے اضافہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان میں بیماریو ں کے خلاف قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔

اُنہوں نے دعویٰ کیاکہ مارکیٹ میں ناقص معیار کی کیڑے مار ادویات دستیاب ہونے کی وجہ سے نہ صرف بیماریوں کی روک تھام میں مسائل کاسامنا کرناپڑتا ہےبلکہ یہ زرعی پیدوار کے معیار کو بھی شدید متاثر کردیتا ہے اور منڈی میں بہتر قیمت کے حصول کے بجائے بیوپاری اپنے مرضی کی قیمت لگالیتاہے۔

ملک عبداللہ خان پشاور کی بڑی سبزی اور فروٹ منڈی میں بیوپاری ہے۔ اُنہو ں نے بتایاکہ پاکستان میں پیداہونے والے میوہ جات اورسبزیوں پر مقررہ حد سے کئی گنا زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال کرنے کی وجہ سے ایک تو زرعی پیدوار جلدی خراب ہوجاتی ہے ۔ دوسری جانب بیرونی ممالک برآمدات میں بھی بہت زیادہ مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ یورپ، امریکہ اور عرب ممالک کی منڈیوں میں ہمارے زرعی پیدوار خریدنے پر اس وجہ سے پابندی ہے کہ ٹیسٹ میں سبزی اور میوجات پر کیڑے مار ادویات زیاہ رپورٹ ہوتے ہیں جو انسانی استعمال کے لئے خطرناک ہوتے ہیں جبکہ باقی ممالک کی زرعی پیداور کو بہتر قیمت پر خرید ا جاتاہے۔

کیاکیڑے مار ادویات کے بغیر زرعی پیدوار کو بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے؟

محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے مطابق، پاکستان میں ہر سال دو لاکھ 70ہزار میٹرک ٹن کیڑے مار ادویات (pesticides) استعمال کی جاتی ہیں۔ کیڑوں کے حملے اور بیماریوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداور 30فیصد سے زیادہ جبکہ سبزی اورمیوہ جات کی 60فیصد سے زیادہ پیداور متاثر ہوتی ہے۔

محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر فلڈآپریشن ڈاکٹر مراد علی خان کاکہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زرعی پیدوار پر بیماریوں کے حملوں میں اضافہ دیکھاگیا ہے۔

اُنہوں نےتفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ محکمہ زراعت اس کوشش میں ہے کہ بیماریوں پر قابوپانے کے لئے ادویات کا استعمال کم سے کم کیاجائے۔ اور اس سلسلے میں کاشتکاروں کو فلائی ٹرپ فراہم کیاجاتاہے جن میں حشرات آسانی کے ساتھ پھنس جاتے ہیں۔

اُنہوں نے کہاکہ نقصان دہ حشرات، جراثیم اور وائرس کے خاتمے کے لئے بائیوجیکل طریقے بنائے جاتے ہیں جوکہ بہت ہی موثر ثابت ہورہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد شاہد کاکہنا ہے کہ باغات، سبزیاں اور اجناس کو مختلف طریقوں سے بیماریوں سے بچایا جاسکتاہے جن میں بہتر اور آب ہوا کے لئے مناسب و مستند بیج کا انتخاب، زرعی زمین پر وقت کے ساتھ مختلف فصلوں کی کاشت، کھیت کو فصل کی باقیات سے صاف رکھنا، مناسب مقدار میں پانی دینا، مناسب مقدار میں کیمیائی کھا د کا استعمال اور کسی بیماری کی علامات ظاہر ہونے پر فوراََ زرعی تحقیق کے شعبے کے ساتھ مشورہ کرنا شامل ہے۔

محمد جاویدنے بتایا کہ علاقے میں روایاتی طورپر کھیت یا باغ کے ایک کونے میں گندم کے دانے کے برابر انجا رکھا جاتاہے جس کے بارے میں لوگوں کے خیال ہے کہ اس اقدام سے فصل بیماریوں سے محفوظ رہےگا۔

انسانوں، مویشوں اور ماحول پر کیڑے مار ادویات کے استعمال کے اثرات

الشفاء میں کینسر کے ماہر ڈاکٹر فرقان نے بتایاکہ پاکستان اور بیرونی دنیامیں زرعی پیدوار کے حصول کے لئے استعمال ہونے والی کیڑے مار ادیات کے بارے میں ابتدئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ادویات میں کچھ موادایسے ہیں جوکہ سپرے کرنے کے بعد یہ زرعی پیدوار میں شامل ہوجاتے ہیں جن کو کھانے سے انسان میں جلد کی بیماری سے لیکر کینسر جیسی خطرناک بیماری کا سبب بن رہاہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کی تحقیق کے مطابق، مصنوعی طریقے سے پھلوں کو پکانے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز، خاص طور پر کیلشیم کاربائیڈ، صحت کے لیے کئی خطرات کا باعث بن سکتے ہیں جن میں منہ و ناک میں جلن،الٹی،جلد پر چھالے یا زخم،گردوں کو نقصان پہچانے کا سبب بنتا ہے۔

کیلشیم کاربائیڈ جیسے کیمیکلز میں اکثر آرسینک اور فاسفورس جیسے خطرناک اجزاء موجود ہوتے ہیں، جو انسانی جسم پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔

اینوائرمینٹل پروڈکیشن ایجنسی، جو صنعتی شعبے سے پید ا ہونے والے فضائی اور آبی آلودگی کے روک تھام کے لئے اقدامات کررہی ہے۔ اس ادارے کے ڈپٹی ڈاریکٹرواجد علی خان کے مطابق، زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد کا استعمال فضائی اور آبی آلودگی کا سبب بن رہاہے جس سے انسان، مویشی اور آبی حیات کی زندگی کو خطرات درپیش ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ادارہ اینوائرمینٹل پروڈکیشن ایجنسی اس کوشش میں ہے کہ زرعی شعبے سے پیدا ہونے والے ہر قسم کی آلودگی کے روک تھام کے لئے اقدمات شروع کرسکے۔

ڈاکٹر شاہد علی خان نے کہاکہ بیماری کی روک تھام کے لئے کیے جانے والے اسپرے کے بعد کم از کم آٹھ سے بارہ دن تک کسی قسم کی فصل کے کٹائی نہیں کرنا چاہیے لیکن آگاہی نہ ہونے اور مالی فائدے کے حصول کے لئے کاشتکار آج اسپرے کرلیتاہے اور کل کاٹ کرکے مارکیٹ میں بھیج دیتاہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں