فضائی آلودگی میں اضافہ قابلِ تشویش، پیشگی مالیاتی انتظامات ناگزیر ہیں: ماہرین
پاکستان کو مربوط، شراکتی اور خطرات سے محفوظ سرمایہ کاری اپنانا ہوگی، سیموئیل رزک
2050 تک آبادی پر عدم کنٹرول جی ڈی پی کا 30 فیصد نگل سکتا ہے، ورلڈ بینک کنٹری ڈائریکٹر
علاقائی تجارت امریکی ٹیرف کے اثرات سے نمٹنے کا واحد راستہ، ماہرین
اسلام آباد (رپورٹ: نمائندہ خصوصی) کنٹری ڈائریکٹر ورلڈ بینک ڈاکٹر بولرما امگاباز نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی آبادی پرعدم کنٹرول دو ہزار پچاس تک جی ڈی پی کا تیس فیصد نگل سکتا ہے۔
یہ بات انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کی 28ویں سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کے اختتامی روز کہی۔
انہوں نے پاکستان کی آبی و فضائی آلودگی پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا ۔
کانفرنس میں عالمی ماہرین نے خبردار کیا کہ پاکستان میں ملکی معیشت کو کئی سنگین خطرات ہیں۔ جن میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی ،کمزور موسمیاتی لچک اور سست ترقیاتی پیش قابل ذکر ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ملک کو معاشی اور ماحولیاتی بحرانوں سے بچانا ناگزیر ہے‘۔ جس کے لیے جدید اور پیشگی مالیاتی انتظامات ضروری ہیں۔ تاکہ ہنگامی حالات میں بروقت ردِعمل ممکن ہو سکے۔
کانفرنس میں 23 ممالک کے ماہرین نے علاقائی رابطہ، عالمی ٹیرف، لیونگ ویج، موسمیاتی لچک، آفات میں کمی اور سب ریجنل تعاون جیسے موضوعات پر شرکت کی۔
عالمی ماہرین کے اہم نکات
یو این ڈی پی کے نمائندے سیموئیل رزک نے کہا کہ دنیا ایک بڑے مالیاتی دوراہے سے گزر رہی ہے۔
جہاں پائیدار ترقی کے لیے حکومت بنیادی سرمایہ کار کا کردار ادا کرتی ہے۔ جبکہ ترقیاتی ادارے اور نجی شعبہ معاون کا کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کو مربوط، شراکتی اور رسک انشورڈ فنانسنگ ماڈل اپنانا ہوگا‘۔ تاکہ مستقبل کی غیر یقینی صورتحال کا بہتر مقابلہ کیا جا سکے۔
ورلڈ بینک کی کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر بولرما امگابازا نے پاکستان کی آبی و فضائی آلودگی اور تیزی سے بڑھتی آبادی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے۔ تو 2050 تک پاکستان کا جی ڈی پی 20 سے 30 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔
:یہ بھی پڑھیں
کراچی شہر کا ”ماحولیاتی ماسٹر پلان“کیوں ہونا چاہیے؟
گرمی برقرار، بارش اور ژالہ باری کی پیشگوئی
انہوں نے بتایا کہ ورلڈ بینک کا 20 ارب ڈالر مالیت کا ترقیاتی روڈ میپ آئندہ 20 برسوں کے لئے دستیاب ہے۔ جس کے تحت حکومت اپنی ترجیحات طے کر سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کے نمائندے ماہر بنچی نے کہا کہ ماحولیات، اور وبائی خطرات سے نمٹنے کے لیے حالیہ ایک اشارعیہ چار ارب ڈالر کا پروگرام موجود ہے۔ جو پاکستان کی معاشی و موسمیاتی لچک بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال سے تمام عوامی ترقیاتی منصوبوں کی ماحولیاتی جانچ لازمی ہوگی۔ تاکہ شفافیت اور وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔
ڈیجیٹل معیشت اور ورچوئل اثاثے
ماہرین نے زور دیا کہ پاکستان کو ڈیجیٹل کرنسی اور ورچوئل اثاثوں کے حوالے سے واضح پالیسی اپنانا ہوگی۔ ورنہ ملک عالمی ڈیجیٹل معیشت میں پیچھے رہ جائے گا۔
پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین و سربراہ پنجاب بینک ظفر مسعود نے بھی سیشن میں شرکت کی۔ اور کہا کہ پاکستان ایک ’’ڈیجیٹل چوراہے‘‘ پر کھڑا ہے۔
اگر بروقت قانون سازی نہ ہوئی تو بیس سےپچیس ارب ڈالر کے مواقع ضائع ہو سکتے ہیں۔
ان کے مطابق دنیا میں اس وقت 27.6 ٹریلین ڈالر مالیت کے اسٹیبل کوائنز گردش میں ہیں جو عالمی مالیاتی طاقت کا نقشہ بدل رہے ہیں۔
ایس ڈی پی آئی کے ممبر ساجد امین نے کہا کہ ایک جانب اسٹیٹ بینک نے کرپٹو ٹریڈنگ پر پابندی لگا رکھی ہے۔
جبکہ دوسری جانب مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی(سی بی ڈی سی) پر کام جاری ہے۔ جس سے پالیسی ابہام پیدا ہوا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے فیصل مظہر نے بتایا کہ پاکستان 2022 سے (سی بی ڈی سی) پر کام کر رہا ہے۔ اور جلد اس کا پروٹوٹائپ تیار ہو جائے گا۔
علی فرید خواجہ نے کہا کہ عالمی سیاسی تبدیلیاں ڈیجیٹل اثاثوں کو متاثر کر سکتی ہیں۔ تاہم اسٹیبل کوائنز کے ذریعے ترسیلاتِ زر کی لاگت میں نمایاں کمی ممکن ہے۔
موسمیاتی اور زرعی چیلنجز
ماہرین نے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی پاکستان کے صحت کے نظام کیلئے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
ڈاکٹر نھو نگویئن، ڈاکٹر ماہ رخ شمس، نبیل منیر، اینا ساسی، ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ اور ڈاکٹر اقرار خان نے کانفرنس میں شرکت کی ۔ اور مٹی کی زرخیزی میں کمی، فصلوں کے ہم آہنگ نظام اور درست ڈیٹا کے استعمال کی اہمیت پر زور دیا۔
ماہرین نے کہا کہ پاکستان کو بدلتی جیو اکنامکس کے تناظر میں کام کرنا ہوگا۔ اور اپنی معاشی و تجارتی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لینا ہوگا۔
وزارتِ تجارت کے جوائنٹ سیکرٹری محمد اشفاق کے مطابق علاقائی تجارت ہی پاکستان کیلئے پائیدار راستہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر ساجد امین جاوید اور نیپال کے ڈاکٹر پارس کھریال نے امریکی ٹیرف نظام کو عالمی تجارت میں عدم استحکام کا بڑا محرک قرار دیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کو امریکہ کے تجارتی دباؤ کا مقابلہ کرنے کیلئے آسیان ماڈل اپنانا چاہئے۔
