فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

کیا شاہراہ بھٹو منصوبہ کراچی کے لیے ماحولیاتی خطرہ بن چکا ہے؟

شاہراہ بھٹو

ماحولیاتی تنظیموں نے ملیر ایکسپریس وے، موجودہ شاہراہ بھٹو منصوبے کی منسوخی کا مطالبہ کیا، حالیہ سیلاب نے ماحولیاتی خدشات درست ثابت کر دیے۔

کراچی میں حالیہ مون سون بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے قدرتی سیلاب کے پس منظر میں ملیر کے رہائشیوں، مقامی برادریوں، سول سوسائٹی، ماحولیاتی و موسمیاتی کارکنوں اور وکلا نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ حکومت کے میگا سڑک منصوبے“شاہراہ بھٹو”(سابقہ ملیر ایکسپریس وے) کے خاتمے اور منسوخی کا مطالبہ کیا۔

پاکستان ماحولیا تی تحفظ موو منٹ،سندھ انڈ جینیس رائٹس الائنس، گرین چیمبر اور کلائیمٹ ایکشن سینٹر کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 39 کلومیٹر طویل یہ ملٹی لین ایکسپریس وے براہِ راست ملیر ندی کے تلے اور فلڈ پلین پر تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس منصوبے شاہراہ بھٹوکو طویل عرصے سے سماجی، ماحولیاتی اور قانونی تباہ کاریوں کے خدشات کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (EIA) تاحال سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جس کا کیس نمبر 60/2023، متفرق اپیل (S) ہے۔

پریس کانفرنس میں مقررین نے یاد دلایا کہ مارچ 2022 میں EIA کی عوامی سماعت کے بعد احتجاجی تحریکوں اور عدالتی کارروائیوں میں بارہا ماحولیاتی خطرات اور سیلاب کے خدشات پر خبردار کیا گیا تھا۔ لیکن سندھ حکومت نے ان کو نظر انداز کیا۔ حالیہ بارشوں میں جام ڈیم گوٹھ کے مقام پر ایکسپریس وے کا حصہ بہہ گیا ہے، جسے حکومت صرف زیرِ تعمیر حصہ قرار دے رہی ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سیلابی راستے حکومت نے خود بنائے۔ ماہرین اور کارکنوں نے اسے دانستہ اور مجرمانہ غفلت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 2020 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب کو کبھی بھی منصوبہ بندی میں شامل نہیں کیا گیا تھا، حالانکہ 2023 میں SEPA کی متنازعہ منظوری کے بعد ہی تعمیرات کا آغاز کر دیا گیا تھا۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ منصوبے کے لیے 100 میٹر زمین مختص ہے، مگر حقیقت میں یہ زمین ملیر ندی کے تلے، فلڈ پلین، زرخیز کھیتوں، تاریخی گوٹھوں (جس میں مگسی اور غلام محمد گوٹھ شامل ہیں) اور یہاں تک کہ سید ہاشمی ریفرنس لائبریری پر مشتمل ہے۔ تاحال زمین کے حصول اور آبادکاری کا منصوبہ (LARP) منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔منصوبے کی ابتدائی لاگت 27.5 ارب روپے لگائی گئی تھی، جو اب بڑھ کر 55 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ حکومت اس میں 15 فیصد عوامی ٹیکس کا پیسہ ڈال رہی ہے، کنسورشیم ملیر ایکسپریس وے لمیٹڈ 20 فیصد لگا رہا ہے جبکہ 65 فیصد رقم بینک قرضے کی صورت میں لی جا رہی ہے، جسے آخرکار عوامی ٹیکسوں سے واپس کیا جائے گا۔ بار بار مرمت کے اخراجات سے لاگت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، جس سے یہ منصوبہ مالی اور ماحولیاتی دونوں اعتبار سے غیر پائیدار ہے۔منصوبے کے پہلے حصے کی افتتاحی تقریب اور اس کے فوری نقصانات نے اس منصوبے کے خاتمے کے مطالبے کو مزید تقویت دی ہے۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ:
پہلے حصے کی انجینئرنگ اور حفاظتی جانچ فوری طور پر کی جائے۔منصوبے کے باقی حصے منسوخ کیے جائیں کیونکہ یہ ماحولیاتی تباہی اور غیر پائیداری کا ثبوت دے چکے ہیں۔موجودہ EIA کو منسوخ کر کے نیا EIA تیار کیا جائے جس میں 2020، 2022 اور 2025 کی شدید بارشوں اور سیلاب کو شامل کیا جائے۔کراچی کی عوامی ٹرانسپورٹ اور مال برداری کی ضروریات کو نظرانداز کرنے والے تمام میگا سڑک منصوب کے لیے نئی فزیبلٹی اسٹڈی کرائی جائے۔تعمیر شدہ حصے کو ہٹایا جائے تاکہ ندی کو اس کی قدرتی شکل میں بحال کیا جا سکے۔منصوبے پر خرچ ہونے والی رقوم کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔EIA کی منظوری دینے اور منصوبے کی تعمیر کی اجازت دینے والے افراد کا احتساب کیا جائے۔
مقررین نے زور دیا کہ یہ منصوبہ ہزاروں لوگوں کی بے دخلی، زرخیز زمین کی تباہی، ملیر ندی کے قدرتی بہاؤ میں تبدیلی اور کراچی کے ماحولیاتی خطرات میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے اس منصوبے کو“کلائمیٹ ڈزاسٹر”قرار دیا۔ مزید کہا گیا کہ سندھ حکومت کی جانب سے شکایات کے ازالے اور ماحولیاتی و سماجی مسائل کے حل کے لیے جس کمیٹی (CR & IC) کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا، اس کی شفافیت اور کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔

شاہراہ بھٹو

شاہراہ بھٹو منصوبے کی ٹائم لائن بھی سنگین غفلت کی عکاسی کرتی ہے۔ منصوبے کی فنڈنگ اکتوبر سن2020 میں مکمل کی گئی، جب اسی سال مالیر ندی میں شدید سیلاب آیا اور ابتدائی کام بہہ گیا۔ اس کے باوجود ایک سال بعد اکتوبر 2021 میں EIA تیار کی گئی اور پھر مزید ایک سال بعد مارچ 2022 میں عوامی سماعت ہوئی۔ صرف ایک ماہ بعد، اپریل 2022 میں SEPA نے EIA کو منظور کر لیا، حالانکہ اس سے پہلے ہی تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں

میرپورخاص کی پہلی خاتون سولر ٹیکنیشن، جس نے گاؤں کو روشنی دینا سکھایا

کیا بیلہ اور لیاری کا ثقافتی ورثہ مٹ رہا ہے؟

2022 کی بارشوں نے ایک بار پھر ندی کے بہاؤ کو ظاہر کر دیا، لیکن کام جاری رہا۔ 2023 میں ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) اور برطانیہ کی FCDO نے ماحولیاتی بنیادوں پر اپنی فنڈنگ واپس لے لی۔ اس کے باوجود جنوری 2025 میں منصوبے کا نام“شاہراہ بھٹو”رکھ کر 15 کلومیٹر کا پہلا حصہ افتتاح کیا گیا۔ لیکن صرف چند ماہ بعد ہی 2025 کی حالیہ بارشوں نے تعمیر شدہ اور زیرِ تعمیر حصے کو بہا دیا، جو متاثرہ برادریوں کے بار بار اٹھائے گئے خدشات کو درست ثابت کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں