فروزاں رپورٹ
پانی کے ماحولیاتی نظام کی حفاظت کیلئے قومی اسٹیک ہولڈرز کی ورکشاپ، صاف پانی، آلودگی اور ماحولیاتی چیلنجز SDG 6.6.1 پر اہم اقدامات کا جائزہ۔
پائیدار ترقی کے ہدف (SDG) 6.6.1 پر قومی اسٹیک ہولڈرز کی پہلی ایک روزہ ورکشاپ جو پانی سے متعلق ماحولیاتی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کو اجاگر کرتی ہے پاکستان واٹر پارٹنرشپ (PWP) کے زیرِ اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی، جس میں سرکاری عہدیداروں، ماہرین، محققین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
ورکشاپ میں پاکستان کو درپیش بڑھتے ہوئے پانی کے ماحولیاتی چیلنجز پر غور و خوض کیا۔پاکستان واٹر پارٹنرشپ کے کنٹری کو آرڈینیٹر محمد اویس نے شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاکستان واٹر شپ کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جب ڈاکٹر طہ شبیر نے پاکستان واٹر پارٹنر شپ کی سرگرمیوں پر مبنی ڈاکومینٹری پیش کی۔
پانی کے مسائل اور ماحولیاتی چیلنجز پر ہونے والی اس ورکشاپ میں منسٹری آف کلائیمٹچینج کی سینئر جوائنٹ سیکریٹری سمیرا شیخ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
پاکستان واٹر پارٹنرشپ کے چیئرمین سردار محمد طارق نے ورکشاپ کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ 6.6.6.1صاف پانی کے حوالے سے ایک انتہائی مشکل پروجیکٹ ہے کیوں کہ پاکستان میں صاف پانی کہیں میسر نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ IWRMکے تین بنیادی پلر ہیں کہ ہر شخص کو ایک مقدار میں صاف پانی ملنا چاہیے، اس کی معاشی اہمیت کیا ہے اورپانی کی پائیدار ماحولیاتی اہمیت۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے اس ورکشاپ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، پہلے حصے میں ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ آلودگی کے ذرائع کیا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ پانی کو آلودہ کرنے میں گھریلو کچرا،صنعتی کچرا اور زرعی کچرا سب سے اہم کردار کے حامل ہیں۔
سردار طارق کا کہنا تھا پاکستان میں کسی دریا،کینال،جھیل یا نالے میں اب صاف پانی موجود نہیں ہے ہم نے اپنے صاف پانی کے تمام ذخائر کو آلودہ کر دیا ہے،اس وقت یہ پانی کے بنیادی مسائل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اس ورکشاپ کے ذریعے ترجیحی بنیادوں پر ان علاقوں کا انتخاب کرنا ہے جہاں صاف پانی کو محفوظ کیا جا ئے،ان میں گھریلو، صنعتی اور زرعی فضلے کو کیسے روکا جائے۔
سردار طارق نے کہا کہ اس سلسلے کی دوسری ورکشاپ میں ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ پاکستان میں پانی کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے، کیا کوئی ایکٹ یا ریگولیشن ان سب چیزوں کو روکنے کے لیے موجود ہے اگر ہے تو کیا اس پر عمل درامد ہو رہا ہے ۔
جب کہ تیسری ورکشاپ میں اس تمام صورتحال پر تمام اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے ا یک ڈیٹا بیسڈ رپورٹ تیار کی جائے گی جو ہمار ے صاف پانی کے حوالے سے ایک انتہائی اہم رپورٹ تصور کی جائے گی۔
سردار طارق نے میٹھے پانی کے ماحولیاتی نظام کی فوری بحالی، ڈیٹا کے جمع کرنے کے عمل کو مضبوط بنانے، اور مساوات، کارکردگی اور پائیداری پر مبنی مربوط آبی وسائل کے انتظام کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرا م، گلوبل واٹر پارٹنرشپ،مرکزی وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی چیلنجز سمیت تمام پارٹنر کا شکریہ اد ا کیا۔
وزارتِ موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی کے ذیلی ادارے گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (GCISC) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایم عارف گوہیر نے کہا کہ پاکستان واٹر پاٹنرشپ، حکومت پاکستان اور عالمی اداروں کے تعاون سے ہونے والی ایس ڈی جیز 6.6.1 کی اس ورکشاپ میں شرکت کر کے خوشی محسوس ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 22سال پہلے میں نے اپنا کیریئر چولستان سے شروع کیاتھا جہاں انسان اور جانور واٹر باڈیز سے پانی پیتے تھے اس وقت سے لے کراب تک پانی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج صاف پانی کے چیلنجیز میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے،ہم بدقسمتی سے ابھی تک پانی کے مسائل کو حل نہیں کر سکے ہیں اور ریموٹ ایریا میں صاف پانی اب تک ایک خواب ہے جو ہر فرد کا بنیادی حق ہے، یہ ہمارے لیے بہت بڑا چیلینج ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں اور بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔
عارف گوہیر کا کہنا تھا کہ میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام، ماحولیاتی چیلنجز، گلوبل واٹر پاٹنرشپ اور پاکستان واٹر پاٹنر شپ سمیت تمام عالمی اداروں کا مشکور ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ان ورکشاپس کے ذریعے جو تجزیاتی رپورٹ ہمارے سامنے آئے گی وہ یقینا ہمارے پانی کے مسائل حل کرنے میں معاون و مدد گا ر ثابت ہو گی۔
اس موقع پر ڈاکٹر اوکاشا نے اعداد و شمار کے ذریعے اپنی تفصیلی ٹیکنیکل پریزینٹیشن میں کہا کہ پاکستان میں صاف پانی کے متعدد ایکو سسٹم موجود ہیں جن میں گلیشئر،دریا جھیلیں، ریزروائرز اور دیگر شامل ہیں اور اس حوالے سے ہمارے لیے چیلنجز اور مواقع دونوں موجود ہیں اور ان کا ہمارے ایکو سسٹم میں اہم کردار ہے اس کے ساتھ پائیدار ترقی کے اہداف کا اہم ترینحصہ بھی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ ہدف 6ہے جس کا مقصد صفائی اور سینتشن کی سہولیات ہر فرد کو مہیا کرنا ہے۔

انھوں نے پانی کی مقدار، معیار اور جغرافیائی پھیلاؤ سے متعلق اشاریوں کی وضاحت کی اور پاکستان، ملاوی اور پیرو میں مستقبل کے کیس اسٹڈیز پر بھی روشنی ڈالی۔
ایس ڈی جی 6.6.1کی فوکل پرسن قرۃ العین قمر نے اس موقع پر اپنی پریزینٹیشن کے ذریعے بتایا کہ صاف پانی کے ذرائع ہمارے اور نیچر کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس ہدف کا مقصد پانی سب کے لیے ہے اور اس کو محفوظ رکھنے کا ہے،پاکستان میں تیرہ ہزار سے زائد گلشیئر موجود ہیں جو کہ ساٹھ سے ستر فیصد تک انڈس ریور کے فلو کا ذریعہ بھی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس نیشنل واٹر پالیسی کے ساتھ اور بھی کئی ریگولیشن موجود ہیں جن اک براہ راست تعلق ایس دی جی 6.6.1سے بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
شمالی پاکستان میں گلیشیائی جھیل پھٹنے کا خطرہ
یورپی یونین کا 2040 کلائمیٹ ٹارگٹ متنازعہ
شرکاء نےماحولیاتی چیلنجز کے اور پانی کے اہم مسائل کی نشاندہی کی جن میں چولستان میں مسلسل پانی کی کمی، کراچی میں شہری پانی کے نقصانات اور پنجاب میں آرسینک آلودگی شامل ہیں۔
انہوں نے درست زمینی پانی کے اعداد و شمار، بہتر آبی حکمرانی، اور ماحولیاتی ذرائع ابلاغ و کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کو تحفظ کی حکمت عملیوں میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
تشویش کا اظہار اس بات پر بھی کیا گیا کہ انفراسٹرکچر منصوبوں میں تاخیر، اہم خطوں میں طویل خشک سالی، اور دریاؤں و نہروں کی بگڑتی حالت صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
مجوزہ حل میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنا، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، تباہ شدہ ماحولیاتی نظام کی بحالی، اور خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں نہری نظام کے پھیلاؤ کو شامل کیا گیا۔
