موسمیاتی تبدیلی: میرا لباس، میری زمین کی چیخ

مائرہ ممتاز- محقیق، کلیمیٹ ایکشن سینٹ

کیا ہم صرف زیبائش چاہتے ہیں، یا زمین کے ساتھ ہمدردی بھی؟

میں جب بھی اپنی الماری کے دروازے کھولتی ہوں، رنگوں کا ایک سیلاب سا بہنے لگتا ہے—لال، نیلا، ہرا، اور وہ پیلا کوٹ جو میں نے صرف انسٹاگرام تصویر کے لیے خریدا تھا۔ یہ لباس مجھے خوشی تو دیتے ہیں، لیکن اب ان کی خوشبو میں کپاس کی تازگی نہیں بلکہ زمین کی سسکیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

فیشن کی دنیا ہمیشہ سے رنگینی، جدت اور اظہارِ ذات کی علامت سمجھی جاتی رہی ہے۔ مگر اس چمکدار صنعت کے پیچھے ایک تاریک حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے،ماحولیاتی تباہی، جو دن بہ دن شدت اختیار کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں تیزی سے فروغ پاتی ہوئی فیشن انڈسٹری آج گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج، آبی وسائل کی آلودگی، اور پلاسٹک کی آفات کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔

دنیا میں فیشن انڈسٹری دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی صنعت ہے۔ صرف ایک جینز کی تیاری میں لگ بھگ 10 ہزار لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے،یعنی اتنا پانی جتنا ایک انسان تقریباً دس سال میں پیتا ہے۔ سستے داموں میں فروخت ہونے والے یہ کپڑے اکثر مصنوعی ریشوں جیسے پولی ایسٹر سے بنائے جاتے ہیں، جو نہ صرف پلاسٹک پر مبنی ہیں بلکہ دھلائی کے دوران مائیکروپلاسٹکس کے ذرات پانی میں شامل کرتے ہیں۔

عالمی سطح پر ہر سال تقریباً 92 ملین ٹن ٹیکسٹائل ویسٹ پیدا ہوتا ہے، جس کا بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک میں بھیجا جاتا ہے، جہاں یہ یا تو زمین میں دفن ہوتا ہے یا کھلے عام جلایا جاتا ہے، جس سے فضا میں زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں۔

فاسٹ فیشن کا دوسرا تاریک پہلو اس کی غیر انسانی مزدوری کی شرائط ہیں۔ بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت اور ویتنام جیسے ممالک میں ہزاروں فیکٹری ورکرز—اکثر خواتین اور بچے—بغیر تحفظ کے، انتہائی کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں۔ ان کی محنت عالمی شمال کے صارفین کی وقتی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے، جبکہ خود ان کی زندگی زہریلے کیمیکلز اور استحصال کے گرد گھومتی ہے۔

ماحولیاتی انصاف کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف آلودگی کے اعداد و شمار پر بات کریں، بلکہ اس صنعت میں موجود طاقت کے عدم توازن کو بھی اجاگر کریں۔ فیشن انڈسٹری کا موجودہ ماڈل استعمال کرو اور پھینک دو کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام کی اس منطق کو دہراتا ہے: منافع پہلے، انسان اور ماحول بعد میں۔

اس مسئلے کا حل محض“برانڈز کو ذمہ دار بنانے”میں نہیں، بلکہ صارفین، پالیسی سازوں اور صنعت کاروں کی مشترکہ کاوش میں ہے۔ پائیدار فیشن کو فروغ دینا، مقامی دستکاری کو سپورٹ کرنا، اور ٹیکسٹائل ویسٹ کی ری سائیکلنگ کے لیے انفراسٹرکچر قائم کرنا—یہ سب ضروری اقدامات ہیں۔

آخر میں، یہ سوال ہم سب سے ہےَ۔
کیا ہم صرف زیبائش چاہتے ہیں، یا زمین کے ساتھ ہمدردی بھی؟
کیونکہ فیشن اگر زمین کو تباہ کرے، تو وہ خوبصورتی نہیں، جرم ہے۔

admin

Recent Posts

گلگت بلتستان میں دو ہفتوں کے دوران مارخور کے غیر قانونی شکار کا دوسرا واقعہ

گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…

15 hours ago

شہر اور کوپ30: آب و ہوا کی جنگ کا نیا دور

دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…

16 hours ago

کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا نقصان

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…

2 days ago

دنیا کی بڑھتی شہری توسیع اور کراچی

عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…

3 days ago

ہنزہ ہینگنگ گلیشیر خطرے کی زد میں

ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…

4 days ago

کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ

کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…

5 days ago

This website uses cookies.