رپورٹس فروزاں

انڈس ڈیلٹا کا بچائو ممکن مگر کیسے؟؟

کراچی: (فرحین ، نمائندہ خصوصی)جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی کمزور جھونپڑیاں ذرا سی تیز ہوایا طوفان کے مقابلےکے قابل نہیں، چہرے پر مایوسی اور مصنوعی مسکراہٹ لئے مٹی اور جگہ جگہ کھڑے سمندری پانی میں ننگے پائوں کھیلتے ہوئے بچے، مستقبل کی فکر سے آزاد اور حال سے بے خبر ،اپنی دنیا میں مگن ،ہر طرف راج تھا تو صرف ویرانی کا۔ ’’چلو بچوں کشتی میں آجائو، کچھ گھنٹوں بعد سمندر کا پانی  بستی میں آئے گا تو مسئلہ ہوگا، چلو کشتی میں سارا سامان رکھ دو جسے ہی پانی اندر آئےگا ہم کشتی میں پناہ لے لیں گے دور سے بھاگ کر آنے والی بوڑھی اور لاغر خاتون نے گھبرائی ہوئی آواز میں بچوں سے کہا، اس کے چہرے پر طویل عرصے کی تھکن اور سمندر کے پانی کا خوف مکمل طور پر نمایاں تھا۔ شاید حالات نے اسے وقت سے قبل ہی بڑھاپےکی سیڑھیاں چڑھنے پر مجبور کر دیا تھا،قارئین پڑھ کر حیران و پریشان ہوں گے کہ یہ کہاں کی منظر کشی کی گئی ہے تو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں یہ منظر کہیں اور کا نہیں بلکہ کیٹی بندر سے سمندر پار ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع انڈس ڈیلٹا کے ہجامرو کریک کے جزیرے کی بستی کا ہے، جیسے سمندر کی بلند ہوتی سطح کے باعث ہروقت ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہے اور یہ ہی نہیں انڈس ڈیلٹا کے کریکس کے13جزیروں کو سمندری پانی نے برباد کر دیا ہے۔،کبھی ہمارا گائوں بہت ہرا بھرا ہوتا تھا، تقریباً آج سے20برس قبل میں کئی زمینوں کا مالک تھا۔ یہ الفاظ اس بستی کے سب سے بزرگ شخص90سالہ اسحاق ڈبلیو کے تھے، ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے سب تباہی دیکھی، یہاں کاشت کاری ہوتی تھی، ہم چاول اور سبزیاں اگاتے تھے، اس نے ایک سرد آہ بھری اور پھر گویا ہوا کہکچھ عرصہ قبل تک سمندر یہاں سے110کلو میٹرکے فاصلے پر تھا، بستی جو آج ویران نظر آرہی ہے یہاں ہزاروں ماہی گیر آباد تھے لیکن اب صرف400سے500گھر باقی بچے ہیں دیگر لوگ حالات سے تنگ آکر کیٹی بندر یا کراچی ہجرت کرگئے،اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو اب کسی سے پوشیدہ نہیں تھے،وہ رو نہیں رہاتھا آنسو خود اس کی آنکھوں سے جھلک رہے تھے۔

وہاں کی زمین پر موجود نمکیات اور کٹائو کے نشان اس بات کا واضح ثبوت تھے کے سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کے باعث انڈس ڈیلٹا اپنے خاتمے کی جانب گامزن ہے، انڈیس ڈیلٹا جس کا شمارناصرف تیمرکے سب سے بڑے جنگلات کا ذخیرہ رکھنے والے ڈیلٹا میں ہوتا ہے بلکہ یہ دنیا کا ساتواںبڑا ڈیلٹا بھی ہےلیکن یہاں کی حالت زار دیکھنے کے بعد کیف افسوس سے کہنا پڑ تاہے کہ اگر اسے بچانے کے لئے کوئی اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان اتنے بڑے قدرتی اثاثے سے محروم ہو جائے گا۔ یہاں سیوریج کا کوئی انتظام نہیں، کوئی اسپتال نہ تعلیمی ادارہ موجود ہے، مقامی شخص نے ویمن جرنلسٹ فارم کی طرف سے اس گائوں کے دورے پر آئے ہوئی ٹیم سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، یہاں کے لوگوں کا واحد پیشہ مالی گیری ہے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے یہاں مچھلی ناپید ہو چکی ہے جس کے باعث یہ لوگ اکثر فاقوں پر مجبور ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کر چکی ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ پلہ مچھلی یہاں کی سب سے مشہور اور وافر مقدار میں پائے جانے والی مچھلی ’’پلہ‘‘ بھی ناپید ہو چکی ہے۔ اس کی آواز میں اداسی، مایوسی اور دکھ صاف آیاں تھا، اس کی کپکتی ہوئی آواز سے اس کی بے بسی کی داستان سنا رہی تھی۔ بستی گوٹ اسحاق ڈبلیو ویرانی کا منظر پیش کر رہی تھی، پوری آبادی میں کتوں اور بطخوں کی بھرمار بھی نظر آئے۔

سطح سمندر کا اتنی تیزی سے آگے بڑھنا اور ڈیلٹا کی زمین کو نگلتے جانا انتہائی خوف اور تشویش ناک بات ہے، انڈس ڈیلٹا کو بچانے کے لئے حکومت کو جلد از جلد اقدامات کرنے چاہئے۔ اس حوالے سے ماہی گیروں کی نجی تنظیم فشر فورک فورم کے سربراہ محمد علی شاہ نے کہا کہ سمندر مسلسل آگے بڑھ رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ تیمر کے جنگلات کی کٹائی ہے،نڈس ڈیلٹا کے علاقے میں4لاکھ ایکڑ تیمر کے جنگلات پائے جاتے تھے لیکن اب شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے اگر انڈس ڈیلٹا کو بچانا ہے تو تیمر کے جنگلات کو وسیع پیمانے پر پھیلانا ہوگا تاکہ وہ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔

اگر انڈس ڈیلٹا کی حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھی کی جائے تو واقعی محمد علی شاہ کی بات100فیصد درست محسوس ہوگی۔

“ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں کیٹی بندر کے پاس موجود پلاٹ میں منتقل کرے اور بند بندھے تاکہ سمندر وہاں تک نہ پہنچ سکے،” یہ بات بزرگ اسحاق ڈبلیو نے شکست خوردہ آواز میں حکومت سے التجا کرتے ہوئے کہا ہماری ٹیم مزید آگے گئی تو گھروں میں خواتین اور بچے نظر آئے، مجھے کوئی انٹرویو نہیں دینا، اتنے عرصے سے ہم انٹرویو ہی دیتے آئے ہیں، نزدیک سے ایک بوڑھی کپکپاتی ہوئی آواز  میں ان جملے نے ہمارے سرشرم سے جھکا دیئے کیونکہ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے کے باعث ان لوگوں کی سوچیں مقفل ہو چکی ہیں، دراصل ان کا درد واقعی بہت بڑا ہے۔ اس حوالے سے سماجی کارکن مصطفیٰ گرگیز نے علاقہ مکینوں کی تائید کی اور کہا کہ اگر ان افراد کو کیٹی بندر کے پاس موجود جگہ میں بسا دیا جائے تو غربت میں قدرے کمی آئے گی،دوسری جانب جب تک دریا سندھ کا قدرتی بحاؤ بحال نہیں کیا جائے گا اس وقت تک انڈس ڈیلٹا کو بچانا ایک خواب ہی ہے، جس کے لئے سالانہ35ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے کیونکہ کیٹی بندر سے متصل انڈس ڈیلٹا کے13بڑے کریکس ہیں13بڑے جزائر ہیں لیکن سطح سمندر میں تیزی سے اضافے کے باعث4سے5جزیرے مکمل خالی ہو چکے ہیں کیونکہ وہاں سمندر کے پانی نے اپنا مستقل مسکن بنا لیا ہے اور آبادی ہجرت کرکے کیٹی بندر یا کراچی منتقل ہو چکی ہے جبکہ40ملین ایکڑ ذرخیز میں بھی سمندر برد ہو چکی ہے جو ایک خوفناک صورتحال ہے۔

شام ڈھل چکی تھی اور یہاں کے مکین بے یارومددگار کسی غیبی مدد کے منتظر تھے روز یہاں اسی ہی طرح صبح کا اجالا پھیلتا ہے اور پھر رات پوری ویرانی کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے لیکن ان کی قسمت نہیں بدلتی، ہجامرو کریک کی یہ بستی بھی بہت جلد سمندر برد ہو جائےگی اس سے قبل ہم اپنا قیمتی اثاثہ کھو دیں، اس المیے کو ہونے سے بچانے کے لئے حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے۔

انڈس ڈیلٹا، ڈیلٹا ہوتا کیا؟؟

ڈیلٹا وہ جگہ ہوتی ہے جہاں دریا سمندر میں گرتا ہے لیکن دونوں کا پانی آپس میں ملتا نہیں بلکہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ جب دریا کا پانی نیچے کی جانب آتا ہے تو اپنے ساتھ بہت ساری مٹی لاتا ہے جو سمندر اور دریان کے درمیان جمع ہوتی رہتی ہے جس سے ڈیلٹا بنتا ہے۔

پلہ مچھلی کی نسل کو لاحق خطرات

پلہ مچھلی اور انڈس ڈیلٹا کو لاحق خطرات کا بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ پلہ مچھلی وہ مچھلی ہے جو ڈیلٹا کے علاقے میں جس جگہ دریا اور سمندر ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہاں سمندر سے دریا میں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈیلٹا ختم ہونے کے ساتھ ساتھ پلہ مچھلی کی پیداوار بھی ختم ہو رہی ہے۔ 

Leave a Comment