عالمی ادارہ محنت کے مطابق دنیا بھر میں 70 فیصد افرادی قوت یعنی 2.4 ارب افراد شدید گرمی سے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے دنیا بھر کے افراد کو شدید گرمی کے اثرات سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے پر زور دیا ہے، کیونکہ عالمی حدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس سے بھی بڑھ چکا ہے، اور اربوں افراد اس شدید گرمی میں اپنی زندگی کی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ گرمی نہ صرف لوگوں بلکہ کرہ ارض پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے، اور دنیا کو اس مسئلے کا فوری حل نکالنا ہوگا۔ ان بیانات کے دوران، انہوں نے کہا کہ اس موسم گرما میں امریکہ، افریقہ کے ساحلی علاقوں اور مشرق وسطیٰ میں سیکڑوں افراد شدید گرمی کے باعث ہلاک ہو گئے ہیں، اور سعودی عرب میں حج کے دوران گرمی نے 1300 سے زائد افراد کی جان لے لی۔
گرمی، بدحالی اور اموات
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اگرچہ گرمی کا اثر عالمی سطح پر محسوس ہو رہا ہے، مگر سب لوگ یکساں طور پر متاثر نہیں ہیں۔ غریب شہری علاقے، حاملہ خواتین، بچے، بزرگ، معذور افراد، بیمار، بے گھر لوگ اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے افراد دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا کے 25 فیصد بچے شدید گرمی کی لہر کا سامنا کرتے ہیں، اور 2050 تک تمام بچے ان حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں گرمی سے ہونے والی اموات میں 85 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ اس مسئلے کا حل ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کے ایسے طریقے اپنانے میں ہے جن میں کاربن کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے۔ مزید یہ کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے مالی وسائل کی مقدار کو بھی بڑھانا ضروری ہے۔
محنت کشوں کا تحفظ
انتونیو گوتیرش نے بڑھتی ہوئی گرمی میں محنت کشوں کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق دنیا کی 70 فیصد افرادی قوت یا 2.4 ارب افراد شدید گرمی کے خطرات سے دوچار ہیں۔ آئی ایل او کی تازہ رپورٹ کے مطابق افریقہ اور عرب ممالک میں 90 فیصد سے زیادہ محنت کشوں کو گرمی میں کام کرنا پڑتا ہے، جبکہ ایشیا اور بحر الکاہل کے علاقوں میں یہ تعداد 75 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق، گرمی کے اثرات سے کام کرنے والے افراد کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 2030 تک 2.4 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا، جو 1990 کی دہائی کے وسط میں 280 بلین ڈالر تھا۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے محنت کشوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ قوانین اور ضوابط آج کے سخت موسمی حالات سے ہم آہنگ ہوں۔
جامع منصوبہ بندی کی ضرورت
سیکرٹری جنرل نے گرمی کے اثرات جیسے بنیادی ڈھانچے کی تباہی، فصلوں کا ضیاع، پانی کی ترسیل کے مسائل، صحت کے نظام پر دباؤ اور بجلی کے گرڈ پر بوجھ کی طرف بھی اشارہ کیا، اور معاشی استحکام کے لیے مضبوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے جامع اور مخصوص منصوبوں کی ضرورت ہے، جو ممالک، شہروں اور شعبوں کی ضروری معلومات پر مبنی ہوں۔
معدنی ایندھن کا مسئلہ
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ شدید گرمی کے پیچھے طوفانوں، سیلابوں، خشک سالی، جنگلوں کی آگ اور بڑھتے ہوئے سمندری درجہ حرارت جیسے اثرات کو پہچاننا ضروری ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا ابھی بھی معدنی ایندھن پر انحصار کر رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر جی20 ممالک کی حکومتوں، نجی شعبے، شہروں اور خطوں کو عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے لیے فوری طور پر منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ممالک کو معدنی ایندھن پر انحصار بتدریج کم کرنا ہوگا اور کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے نئے منصوبوں کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ انسانیت کا مستقبل اسی پر منحصر ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے، قطب جنوبی کے دورے کے دوران انتونیو گوتیرش نے خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں سے کہا تھا کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ معدنی ایندھن کے خاتمے کے سست اقدامات کے نتیجے میں عالمی حدت تباہ کن سطح تک پہنچ سکتی ہے، اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو عالمی درجہ حرارت قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں تین ڈگری سیلسیئس بڑھ سکتا ہے۔
اپنے دورے کے دوران انہوں نے قطب جنوبی میں برف پگھلنے کی تیز رفتار شرح کا مشاہدہ کیا، جو 1990 کی دہائی کے آغاز کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تیز ہو رہی ہے۔ نئی معلومات سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ قطب جنوبی میں سمندری برف کا حجم اس عرصے کی اوسط کے مقابلے میں 15 لاکھ مربع کلومیٹر کم ہے۔
گوتیرش نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف پانی اور خوراک کے بحران تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ چھوٹے جزائر اور دنیا کے ساحلی علاقوں میں پورے شہروں کی بقا کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی، تو گرین لینڈ اور مغربی انٹارکٹکا کی برفانی تہہ تقریباً ختم ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں سمندری سطح میں 10 میٹر تک اضافہ ہو سکتا ہے، اور موسمی شدت بھی بڑھ جائے گی۔