فروزاں

گرمی کی شدید لہر سے جلتا پاکستان

تحریر:  محمود عالم خالد

وہ وقت دور نہیں جب بڑھتا ہوا درجہ حرارت محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے گا

رواں سال مہلک ترین گرمی کی لہروں نے ایشیا، افریقہ، یورپ اورامریکہ کو جھلسا کر رکھ دیا۔ عالمی اداروں کی رپوٹوں کے مطابق دنیا کی 60فیصد آبادی نے تاریخ کی شدید ترین گرمی کا سامنا کیا،ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں برس پڑنے والی گرمی کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔اس ضمن میں سب سے بڑا سانحہ مسلم دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ میں 17جون کو پیش آیاجب مکہ مکرمہ کا درجہ حرارت 51ڈگری سینٹی گریڈ کو پہونچاجس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف ملکوں سے فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے آنے والے ایک ہزار سے زائد حجاج اکرام جاں بحق ہوئے جب کہ ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں شدید گرمی سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں پہونچی۔یورپی یونین کے ادارے کوپر نیکس کلائیمٹ چینج سروس کے مطابق رواں سال جون کا مہینہ تاریخ کا سب سے گرم ترین جون تھا،اقوام متحدہ کے مطابق یہ مسلسل 13 واں مہینہ ہے جب زمینی درجہ حرارت اوسط سطح سے 1.5ڈگری زائد تھا،ادارے کے مطابق زمینی درجہ حرارت میں 1.5ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے زیادہ اضافہ اب تواتر سے ہونے لگا ہے۔

سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ 2024تاریخ کا سب سے گرم ترین سال بن جائے گا۔اقوام متحدہ سمیت دنیا کے معتبر تحقیقی اداروں نے موجودہ دور کو ”گلوبل بوائلنگ“ کا دور کہنا شروع کردیا ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی بنیادی وجوہات میں فوسل فیول کا بے تحاشہ استمال جس میں کوئلہ،تیل اور قدرتی گیس شامل ہیں جن کے استمال سے دیگر گیسوں کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے جو فضا میں گرمی کو ٹریپ کر لیتی ہے جس کے نتیجے میں سیارہ گرم ہو جاتا ہے اس کے ساتھ گائے،بھینس اور بھیڑ بکری بھی طاقت ور ترین گیس میتھین خارج کرتی ہیں،ایک اور بنیادی وجہ دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی ہے کیوں کہ جنگلات کاربن کو جزب کرتے ہیں جب ان درختوں اور جنگلات کو کاٹا جاتا ہے تو وہ ذخیرہ شدہ کاربن دوبارہ فضا میں چلی جاتی ہے جس سے درجہ حرارت میں مزید تیزی آجاتی ہے،اس کے علاوہ ال نینو کے اثرات بھی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بنتے ہیں۔عالمی موسمیاتی تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشیائی سمندر وں کی حدت میں 0.5ڈگری سینٹی کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جو عالمی اوسط سے 3گنا زیادہ ہے۔

پاکستان کے معروف موسمیاتی سائنس دان ڈاکٹر قمر الزمان چوہدری نے فروزاں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روان سال جون نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا،سری لنکا،امریکہ یورپ اوربرطانیہ سمیت دنیا کے تمام خطوں کے لیے گرم ترین تھا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں درجہ حرارت نارمل سے بہت زیادہ تھا جب کہ نئی دہلی میں درجہ حرارت 50ڈگری تک گیاجو اس سے پہلے وہاں جون میں ریکاڈ نہیں کیا گیا۔ موسمیاتی سائنس دان کا مزید کہنا تھا کہ دبئی اور ابوظہبی میں بھی رواں سال درجہ حرارت 50ڈگری تک گیاجو کہ پہلی مرتبہ ہوا اور ان کو یہ امید نہیں تھی کہ درجہ حرارت اس درجہ تک جائے گااس کے نتیجے میں انہیں اسکول اورآفیسیز میں چھٹیاں کرنا پڑیں اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں بھی جون کے مہینے میں حد سے زیادہ گرمی دیکھی گئی اور یہ نئے ریکاڈ ہیں اور یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نہ صرف کسی ایک ملک میں بلکہ دنیا کے مختلف براعظموں میں جون کے مہینے میں اس طرح کادرجہ حرارت ریکاڈ کیا گیا۔ڈاکٹر قمر الزماں نے کہا کہ پاکستان کی جون کی مہینے کی سمری میں بتایا گیا کہ اس مہینے شدید گرمی کا مشاہدہ کیا گیا جس سے اب یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور خاص طور پر گلوبل وارمنگ شدید ہوتی جا رہی ہے اور اس دنیا کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔

نقشہ

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں کیا جاتا ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک کی درجہ بندی میں سرفہرست ہیں۔عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں پاکستان کے درجہ حرارت میں 2.5ڈگری کا اضافہ ہوجائے گاجس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو سالانہ7سے14ارب ڈالر کا نقصان ہو گا جس کے واضح اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔پاکستان میں تیزی سے بڑھتا ہواموسمیاتی بحران اپنی انتہاؤں کی جانب گامزن ہے خاص طور پر تیزی سے بڑھتا ہو درجہ حرارت۔

پاکستان کے باسیوں کے لیے شدید گرمی کا مشاہدہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جس تیزی اور شدت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ انتہائی الارمنگ صورتحال کی کی نشاندہی کر رہا ہے 2015,2018اور2022میں بھی پاکستان کے شہری گرمی کی شدید لہروں کا سامنا کر چکے ہیں جس میں مجموعی طور پر ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ماہرین کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں گرمی کی شدید لہروں کی تعداد میں 5گنا اضافہ ہوا ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ جیسے جیسے زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا اسی مناسبت سے ملکی درجہ حرارت بھی عالمی شرح اوسط سے زیادہ بڑھتا طلچلا جائے گا کیوں کہ عالمی اوسط درجہ حرارت 1.1ڈگری سینٹی گریڈ کے مقابلے میں پاکستان کے درجہ حرارت میں اضافے کی شرح 1.6ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔امریکہ کے تحقیقی ادارے ”رینڈ“ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں اگر گرین ہاؤس گیسزکا اخراج اسی طرح جاری رہا تو جنوبی ایشیا (جس میں پاکستان بھی شامل ہے) میں ہیٹ ویو میں اتنا اضافہ ہو گا جو انسانی برداشت سیبہت زیادہ ہو گا۔

عالمی موسمیاتی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدیدترین گرمی نے رواں سال پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیے رکھاجس میں جیکب آباد میں 52،لاہور میں 44اور کراچی میں درجہ حرارت 42ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہونچا۔کراچی اور لاہور کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی نے ان دو بڑے شہروں کو گرمی کے جزیرے (اربن ہیٹ ائی لینڈ) میں تبدیل کر دیا ہے۔ کراچی اربن لیب کی تحقیق کے مطابق 1960کے بعد سے اب تک کراچی میں دن کے درجہ حرارت میں 1.6ڈگری اور رات کے درجہ حرارت میں تقریبا 2.4ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جب کہ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)کی رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی نسبت کراچی میں درجہ حرارت میں اضافے کی شرح خاص طور پر زیادہ ہے۔

رواں سال گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کے اعداد وشمار کے بارے میں متضاد خبریں میڈیا کی زینت بنیں۔ایدھی فاویڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی سینٹر کے سر د خانوں میں لائی جانے والی میتوں کی تعداد 830اور چھیپا کے سرد خانوں میں 100میتیں لائی گئیں جو معمول سے کہیں زیادہ تھیں جب کہ کمشنر کراچی کے مطابق گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں 13افراد جاں بحق ہوئے۔کراچی کے سب سے بڑے اسپتال کے ایک اہلکار کا کہنا تھا ایسے سیکڑوں مریضوں کو اسپتال میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی طبی امداد دے کر واپس کر دیا گیا جو کہ ہیٹ ویو کے نتیجے میں لائے گئے تھے اورجن کی موت یقینی تھی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں گرمی کی شدید لہر سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ ہیٹ ویو کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی زیادہ تعدا نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہوتی ہے اور ان کی کو ہیٹ ویو کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ ہیٹ ہویو لکی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹر حضرات بھی مرنے کی فوری وجہ کا ہی اندراج کرتے ہیں۔

ڈاکٹر قمر ا لزماں چوہدری کراچی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس دفعہ بھی شہر کی صورتحال کا فی نازک رہی ہیومنٹی زیادہ اور سمندری ہوائیں بند ہو گئی تھی، 2015میں بھی درجہ حرارت 45کے قریب تھا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں تھی لیکن اس دفعہ لوگوں کے احتیاط کرنے کی وجہ سے اور کچھ مہکموں کی جانب سے وارننگ جاری کرنے کی وجہ سے بہتری رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں کے سیزن میں کراچی سمیت پورے سندھ میں صورتحال کافی خراب ہو جاتی ہے خاص طور پر جیکب آباد میں اور چھور میں بھی درجہ حرارت 47کو کراس کر گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیکی صورت میں کراچی کی جو صورتحال بنتی جا رہی ہے اس میں شہر کی انتظامیہ کو گرین ایریا کو بڑھانے اور اس کو پرموٹ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ شہر کے بڑھتے ہو درجہ حرارت کو کم کیا جا سکے۔

شہر کراچی میں موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی اور سمندر ی ہو ا کا نہ چلنا اپنی جگہ ایک حقیت مگر شہر میں شدید گرمی کی لہر سے ہونے والی اموات میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ،حکومتی اداروں کی جانب سے گرمی سے سے بچاؤ کے شیڈ نہ لگانا،ہیٹ ویو کیمپ کی غیر موجودگی،ہسپتالوں میں میں جگہ کی کمی کے باعث بروقت علاج نہ ہونا یہ وہ خاص عوامل ہیں جن کے باعث ہیٹ میں ہونے والی اموات میں شدت آتی ہے جب کہ مرنے والے کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں گرمی موت کی وجہ کے طور پر نہیں لکھی جاتی جس کی وجہ سے یہ اموات سرکاری اعداد و شمار کا حصہ نہیں بن پاتیں۔کچی آبادی اتھارٹی کے مطابق کراچی میں 1441کچی آبادیاں ہیں جن میں شہر کی 56فیصد آبادی مقیم ہے ان آبادیوں میں بنیادی سہولیات بشمول گیس،بجلی اور پانی کا فقدان اس کے علاوہ کراچی میں کم آمدنی رکھنے والوں کے کی بڑی اکثریت بھی آباد ہے۔شدید گرمی سیجاں بحق ہونے والوں کی اکثریت ان ہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔

شہر کراچی کے تیزی سے بڑھتے ہو ئے تناظر میں نہ صرف شہری حکومت اور اسٹیک ہولدرز بلکہ شہریوں کو بھی جنگی بنیادوں پر حکمت علی ترتیب دینا ہوگی۔2016/17میں بنائے گئے ”ہیٹ ویو مینجمینٹ پلان“ پر سختی سے عملدرامد کرنے کے ساتھ شہری حکومت کی سربراہی میں کراچی کے لیے بنائے جانے والے ”کلائیمٹچینج ایکشن پلان“ میں بڑے پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر نا ہو گا اور اس پلان میں ”ہیٹ ویو“ کو بطور آفت کے شامل کرنا ہو گااس کے ساتھ شہر میں ھاٹ اسپاٹ ڈیکلئر کر کے بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا ہو گی اور اس کے لیے کراچی کے شہریوں سے اربوں روپے کمانے والے کارپوریٹ سیکٹر کوپابند کرنا ہو گا۔پچھلے 5سالوں سے ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے کہ اسکولوں،پارکوں سمیت دیگر عمارتوں پر ٹائل لگانا شروع کردیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں شہر میں خالی زمیں ختم ہوتی جا رہی ہے اس سلسلے کو فوری ختم کر کے خالی زمیں پر گھاس اور پودے لگانا ہوں گے، ہاٹ اسپاٹ والے علاقوں میں ایسے ہیٹ ویو کیمپ لگانا ہوں گے جہاں پانی کے ساتھ ڈرپ لگانے والا عملہ موجود ہوجب کہ ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات کا درست ڈیٹا جمع کر کر کے اس کو پبلک کرنا ہوگا۔یہ اور اس جیسے دیگر اقدامات کے زریعے ہی گرمی کی شدید لہروں کے اثرات میں کمی لائی جا سکتی ہے وگرنہ وہ وقت دور نہیں جب شہر کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے گا۔

Leave a Comment