رپورٹس فروزاں

ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ، عوام کی تربیتی ناگیز

کراچی: (فرحین ، نمائندہ خصوصی) موجودہ دور میں پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات پر تشویش کا شکار ہے ہر ملک میں ایک ہی موضوع زیربحث ہے اور وہ ہے ماحولیاتی تبدیلیاں۔جس طرح دنیا کا ہر ملک ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہورہا ہے اس ہی طرح پاکستان کا شمار  بھی ایسے ملک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور تغیرات کا براہ راست شکار ہیں۔ جس کا اندازہ گزشتہ چند برسوں میں مختلف قدرتی آفات سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ دنیا اس بات سے باخبر تھی کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک اثرات کا سامنا ہوگا لیکن کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی گئی بالخصوص پاکستان میں اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ جس کا منہ بولتا ثبوت کئی برسوں سے آنے والے شدید  سیلاب اور رواں برس خشک سالی خطرہ ہے۔ کچھ چیزیں ایسی تلخ حقیقت ہوتی ہیں کہ اس سے انکار ناممکنات میں سے ہوتا ہے ان میں سے ہی ایک ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جن کو ہر صورت ہوکر رہنا ہے۔

 ماہرین کے مطابق ہر 100 برس بعد ماحولیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال سمندر کے درمیان مختلف جزائر کا ابھاجانا اور معدوم ہوجانا ہے، بات صرف یہ ہے کہ جس چیز کو وقوع پذیر ہونا ہے وہ ہوکر رہتی ہے لیکن اگر اس سے نمٹنے کی تیاری مکمل ہو تو یقینی طور پر نقصان قدرے کم اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن افسوس ہمارے ملک میں ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کو لے کر صرف باتوں کی حد تک اور ڈالرز کمانے کی خاطر چند گھنٹوں پر مشتمل برائے نام آگاہی پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے جہاں صرف  ہوائی باتوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ، ہم بات کرتے ہیں آگاہی کی تو کوئی یہ بتادے کہ کیا پاکستان میں عام آدمی ماحولیاتی تبدیلی کے مفہوم سے آگاہ ہے، نہیں ایسا نہیں ہے، اور جب تک ایسا نہیں ہوگا اس چینلچ کا سامنا کرنا ممکن نہیں۔،

ادارے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ  جب تک ایک عام آدمی اس بات سے واقف نہیں ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں کیا ہیں اور ان سے کس طرح بچائو ممکن ہے اس وقت تک محض ڈالرز حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی ورک شاپسز یا گفت و شنید کی نشستوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ بنیاد طور پر ماحولیاتی تبدیلی جیسے چینلز سے نمٹنے کے لیے عوام میں آگاہی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دراصل ماحولیاتی تبدیلیاں ایک قدرتی عمل ہے۔ 21ویں صدی میں اس کو وقوع پذیر ہونا تھا جو ہوچکا ہے، اگر عام فہم الفاظ میں کہا جائے تو ماحولیاتی تبدیلیوں میں معمول کے مطابق ہونے والے واقعات کااچانک وقع پذیر ہوجانا ہے، جیسے اچانک تیز بارش کا ہونا، طوفانوں میں شدت آجانا، زلزلوں میں اضافہ، موسموں کا بدل جانا، مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ ماحولیاتی ایونٹس ناقابل پیشن گوئی ہوجائیں تو یہ موحولیاتی تبدیلی کہلاتی ہے۔ جس کا مظاہرہ ہم دیکھ چکے ہیں۔

 ماہرین کے مطابق  پچھلے سو برس میں زمین کی سطح کے درجۂ حرارت میں 0.85 درجہ سیلسیئس کا اضافہ ہوا ہے۔ ریکارڈ شدہ برسوں میں سے 13 گرم ترین برس 21ویں صدی میں تھے، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کارخانوں اور زراعت سے ہونے والے گیسوں کے اخراج کی وجہ سے قدرتی گرین ہاؤس عمل میں اضافہ ہو رہا ہے، زمین کا کرۂ ہوائی سورج سے آنے والی توانائی کو قید کر کے اسے باہر نکلنے نہیں دیتا،بلند درجۂ حرارت، شدید موسمی حالات اور سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح، سب کا تعلق گرم ہوتے ہوئے ماحول سے ہے، اور اس سے دنیا بھر پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں، 1900 سے دنیا بھر میں سطحِ سمندر اوسطاً 19 سنٹی میٹر اونچی ہوئی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں اس سطح میں اضافے کی شرح بھی بڑھی ہے جس کی وجہ سے کئی جزائر اور نشیبی علاقوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے،قطبین پر برفانی تہوں کا پگھلاؤ بھی اس اضافے کی اہم وجوہ میں شامل ہے،ْبڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے قطبی سمندر بھی سکڑ رہا ہے، تاہم اس کا سمندر کی چڑھتی ہوئی سطح پر زیادہ اثر نہیں ہوتا۔

کے مقابلے میں سمندری برف کا برطانیہ سے 10 گنا بڑا رقبہ ختم ہو چکا ہے،اب دنیا اس نہج پر ہے جہاں ہر ایک کو اس مسلے سے ٹمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا لیکن جب تک  عوامی سطح پر تربیتی مہم نہیں چلائی جائے گی تب تک کوئی خاطر خواہاں نتائج برآمد نہیں ہونگے ، اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر آگاہی مہم ہونی چاہیے ،عوام کو بتایا جائے کہ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ نے اپنے بچائو کس طرح کرنا ہے۔ جب تک عوام میں تربیت اور آگاہی کا فروغ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک بند کمروں میں کیے جانے والے پروگراموں کا کچھ حاصل حصول نہیں۔

Leave a Comment