مضامین

موسمیاتی تبدیلی: گلیشئرز کا عالمی دن

تحریر: ڈاکٹر طارق ریاض

قدرت نے ہماراایکو سسٹم بڑے نازک توازن پر برقرار رکھا ہوا ہے اور معمولی سے معمولی جاندار بھی اس میں اپنا کردار رکھتا ہے۔

پرور دگار عالم نے ہماری دنیا بڑے متوازن ماحولیاتی نظام پر قائم کر رکھی ہے۔ اس نظام یا ایکو سسٹم (ایکو سسٹم) میں ہر قدرتی وسیلہ اس طرح سے فٹ ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ! اس سیارے پر تقریبا 70فیصد رقبہ کو پانی اور لگ بھگ 30 فیصد حصہ کو خشکی کی شکل میں رکھا گیاہے۔ اس 70فیصد پانی میں 97فی صد پانی سمندروں جب کہ 2فی صد برف کی چادروں (آئیس شیٹ) یا گلیشئرز پر مشتمل ہے۔ کل پانی کا صرف ایک فی صد تازہ پانی یا فریش واٹر ہے جسے ہم صنعت،زراعت اور روز مرہ زندگی میں استمال میں لاتے ہیں۔ سمندروں کا کھارا نمکین پانی انسانی استمال کے قابل نہیں ہے۔ اب لے دے کر دو فیصد گلیشیئر یا برف پوش چوٹیاں ہیں جہاں سے کچھ پانی رفتہ رفتہ برف کے پگھلنے پر تازہ پانیوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسانی استمال کے لیے رہ جاتا ہے اس کے لییکوئی لمبی چوڑی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

ایک گلیشیئر بڑے عرصے سے سلامت چٹانوں، پتھروں اور برف کا مجموعہ ہے جہاں سے برف آہستہ آہستہ پگھل کر نیچے زمین کی طرف پانی کی صورت میں آتی ہے۔اس بہاؤ کے پیچھے موسمی تبدیلیاں،چٹانوں یا برف کا اپنا وزن اور کشش ثقل کا اہم کردارہے۔ دنیا بھر میں یہ گلیشیئرز ایک توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات نے گلیشیرز کے پگھلاؤ کا عمل خطرناک حد تک تیز کر دیا ہے۔ اسی لیے اقوام متحدہ نے سال 2025کو گلیشیئرز کے تحفظ کا عالمی سال قرار دیتے ہوئے 21مارچ 2025کو عالمی سطح پر آگاہی اور شعور کی بیداری کے لیے اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام جان سکیں کہ دنیا بھر میں لگ بھگ 200000 گلیشیئرز کو موسمیاتی تبدیلیوں سے جو خطرات لا حق ہیں اس کا ہمارے سیارے اور ہماری زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور کیا ہوں گے۔

ان گلیشیئرز کی بقا کا درومدار برفباری،ژالہ باری، درجہ حرارت، بادلوں کی کثرت وغیرہ پر ہے۔ یہ سب تیزی سے رونماہونے والی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ان گلیشیئرز میں سے 91فیصد انٹارٹیکا،8فیصد گرین لینڈ،0.5فیصد سے زائد کو ان بدلتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی بڑے بڑے گلیشیئرز پائے جاتے ہیں، ان میں سے سیاچن گلیشیئر تقریبا 73کلو میٹر، بالتورہ گلیشیئر تقریبا 65کلو میٹر، ”ینگونتا“ تقریبا 36کلو میٹر اور ”چینٹر“ 39کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئرر ”لمبرٹ“ مشرقی انٹارٹیکا میں ہے جو لگ بھگ 80کلو میٹر چوڑا ہے۔ ونٹا یوکل نامی گلیشیئر کا شمار دنیا کے دوسرے بڑے گلیشیئر میں ہوتا ہے۔ یہ آئس لینڈ کے کل رقبے کا 8فیصد ہے۔ اب دنیا بھر میں پھیلے برف کی شکل میں پانی کے ان ذخائر سے چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ دنیا نے پاکستان، بھارت،بنگلہ دیش، فلپائن، سری لنکا اور کئی دوسرے ممالک میں بد ترین سیلابوں کی صورت میں سب ہی دیکھ چکے ہیں۔ان سیلابوں کی تباہ کاریوں سے ابھی بھی کئی علاقے نکل نہیں سکے۔

قدرت نے گلیشیئرز بلا وجہ نہیں بنائے۔ ان کی مخصوص ماحولیاتی اہمیت اور کردار ہے۔ جہاں اس نے 2فیصد پانی ان میں پوشیدہ رکھا ہے وہاں قدرت کے یہ شہکار ہماری دنیا کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ یہ برف کی چادریں ہماری زمین کے درجہ حرارت و حدت کو ایک حد میں رکھنے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ فطرت نے زمین کے سروں (پولس) پر برف پوش پہاڑ و گلیشیئرز اس لیے بنا رکھے ہیں کہ سورج کی تپش سے خط استوا (ایکویٹر) اور دیگر علاقوں کو بچایا جا سکے۔ پاکستان جیسے ممالک کو تازہ پانی کی فراہمی میں بھی یہ گلیشیئرز بے نظیر کردار کے حامل ہیں۔ ان کے پگھلنے کا فطری عمل دریاؤں کے بہاؤ اور زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں ہی زراعت، صنعت اور روز مرہ دستیاب آبی وسیلہ بنتاہے حتی کہ پینے کے پانی کی فراہمی اور بجلی بنانے کے لیے بھی یہی پانی استمال ہوتا ہے۔

جمالیاتی حس کی تسکین گلیشیئرز کے ملبے تلے دبے معدنیات، سیاحت ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کا کام بھی گلیشیئرز کے ذمہ ہے۔ ان کے کردار کو سب سے بڑا خطرہ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرات سے ہے۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر کیگلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ انسانی سرگرمیاں، تیزی سے کاربن کے آکسائیڈز کی ماحول میں شمولیت اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہماری زمین کے دردرجہ حرارت کو بڑھا رہا ہے۔ اس وجہ سے گلیشیرز کا پگھلاؤ غیر فطری انداز میں ہو رہا ہے۔یوں ہماراماحولیاتی نظام اور اس کا توازن دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔

یہ گلیشیئرز دنیا کے ہر شخص کے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ سب اس ماحولیاتی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پودوں اور جانوروں کی تمام کمیونیٹیز بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں ہیں۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ نے سطح سمندروں میں بلندی اور مٹی کے بردگی (ایروژن) کے عمل پر گہرے اثرات مرتب کییہیں اس وجہ سے ساحل سمندروں کے نزدیک جنگلی حیات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

گلیشیئرز کی تباہی نے اور بھی کئی طرح کے مسائل کو جنم دیا ہے۔ انسانی آبادی کے لیے پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ ہائیڈرو الیکٹرک (بجلی) پاور کی پیداوار میں فرق پڑ رہا ہے۔ شعبہ زراعت کا دارومدار بروقت پانی کی فراہمی پر ہے۔یہ شعبہ بھی گلیشیئرز کی کم ہوتی تعداد سے پیداواری صلاحیت کھو رہا ہے۔دوسری طرف بے موسمی بارشیں بارشیں اور بے وقت پانی کی دستیابی بھی ایکو سسٹم کو متاثر کر رہا ہے کیوں کہ ان کے پگھلنے سے تازہ پانی کی بڑی مقدار، رسوب (سیڈیمینٹس)، نمکیات وغیرہ آبی ماحولیاتی نظام و آبی حیات کے مساکن کے توازن اور ساخت سے چھیڑ چھاڑکر رہے ہیں اور رہی سہی کسر انسانی سرگرمیوں سے پوری ہو رہی ہے اور ہمارے تمام ماحولیاتی نظام کی بقا کے سامنے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

اس طرح پانی کا بہاؤ متعدد مچھلیوں اور آبی حیات کو مکمل تحفظ نہیں دے پا رہا جو ان کی بقا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیوں کہ پانی کی پی ایچ (پی ایچ) برقرار رکھنے میں مشکل ہے۔ آبی طور پر تیزابی کیفیات (ایسی ڈیفیکیشن) یعنی پی ایچ کی کمی پانی خصوصیات پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ سمندری پانی کی اوسط پی ایچ 8سے کچھ زائد تھی لیکن 2020سے یہ اساسی سے تیزابی خصوصیت کی طرف جا رہا ہے۔ اس کی وجہ گلیشیئرز کا پگھلاؤ ہے جو کاربن کے آکسائیڈز اور انسانی سرگرمیوں کے باعث تیزابیت نے سمندری حیات جیسے مو لسکاز (مولیوسلس) اور کورل ریف وغیر کوبری طرح متاثرکر رہا ہے۔

ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محض عالمی سطح پر دن منانے سے گلیشیئرز کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے یا واقعی ہر سطح پر دنیا کو اپنا سیارہ بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ کو روکنے اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے سب سے پہلے دنیا کے لوگوں کو کاربن کے آکسائیڈز کم کرنا ہوں گے کیوں کہ گلوبل وارمنگ سے نبٹ کر ہی اس مشکل سے نکلا جا سکتا ہے۔ یقینا اس مقسد کے لیے دنیا کو سیاسی،سماجی اور انتظامی بندوبست کرنا ہو گا جو قانون سازی، سخت سزاؤں کا اطلاق، ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں عوامی شعور کی بیداری اور احساس ذمہ داری کے جذبات پرواں چڑھانے اور جنگلات کے بچاؤ سے ممکن ہو سکے گا کہ ماحولیاتی نظام اور ہماری دنیا تباہی سے بچ جائے۔

اب یہ کسی قوم، ریاست یا براعظم کے بس میں نہیں، چونکہ سب نے اس بربادی میں حصہ ڈالا ہے۔ اس لیے سب کو کم از کم 45فیصد تک کاربن کے اخراج کو قابو کرنا ہو گا۔ قدرت نے ہماراایکو سسٹم بڑے نازک توازن پر برقرار رکھا ہوا ہے اور معمولی سے معمولی جاندار بھی اس میں اپنا کردار رکھتا ہے، چناچہ تمام طرح کی جنگلی حیات کے تحفظ اور جنگلات کے کٹاؤ سے بطاؤ کے علاوہ نئے جنگلات لگانا وقت کی آواز ہے۔ پاکستان بھی دنیا کے اس خطہ میں واقع ہے جہاں بہت بڑے بڑے گلیشیئرز موجود ہیں۔ من حیث ا لقوم ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہممیں پہلے اپنے گلیشیئرز کو پگھلنے سے بچانے کی حکمت عملی بنا کر اس پر عمل درامد کرنا ہے اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ گلیشیرز کے عالمی دن کاپیغام ہر فرد تک پہونچانے اور مل جل کر اپنی دنیا کو بچانے کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Leave a Comment