محمود عالم خالد
ہمیں جان لینا چاہیے کہ د رجہ حرارت صرف موسمیاتی عدد نہیں، بلکہ یہ آنے والے وقت کی ایک وارننگ ہے۔
قوامِ متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کی تازہ رپورٹس اس امر کی تصدیق کر چکی ہیں کہ زمین کی سطح کا اوسط درجہ حرارت صنعتی دور سے اب تک تقریباً 1.2 ڈگری سیلسیس بڑھ چکا ہے، اور اگر عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں فوری اور بڑی حد تک کمی نہ کی گئی، تو یہ اضافہ 1.5 ڈگری کی حد کو رواں دہائی میں ہی عبور کر سکتا ہے۔ 2015 میں پیرس کلائمیٹ ڈیل کے نام سے کیا جانے والا وہ معاہدہ جس پر دنیا کی حکومتوں نے دستخط کیے تھے اب تحلیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ نہ صرف قطبین کی برفکو تیزی سے پگھلا رہا ہے، بلکہ شدید گرمی کی لہر، خشک سالی، جنگلاتی آگ، طوفانی بارشوں اور دیگر موسمیاتی مظاہر کی شدت اور تواتر میں بھی نمایاں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی ”گلوبل رسک رپورٹ 2025“ میں عالمیحکومتوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شدید موسمیاتی واقعات مسلسل چوتھے سال عالمی خطرات میں سرفہرست رہے اور اب یہ محض آفات نہیں بلکہ بار بار آنے والے بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، تباہی کے بڑھتے ہوئے یہ پیمانے اس اہم حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اب ماحولیاتی موافقت کی پالیسی کو بحث و مباحثوں سے نکال عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نپٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی اسی رپورٹ میں اعداد و شمار کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ 2024میں دنیا نے ریکاڈ توڑ درجہ حرارت کا سامنا کیا، اس سال کو اب تک کا گرم ترین سال قرار دیا گیا،جنوبی ایشیا میں تباہ کن سیلابوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا،جنگلاتی آگ نے یورپ اور شمالی امریکہ میں تباہی مچائی جب کہ جنوبی افریقہ کے کئی حصوں کو طویل خشک سالی نے غذائی عدم تحفظ کی جانب دھکیل دیا۔رپورٹ میں دنیا کی معروف انشورنس کمپنی میونخ ری کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2024میں موسمیاتی آفات کے باعث ہونے والے کل اقتصادی نقصانات 320ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے جوگذشتہ دہائی کی سالانہ اوسط سے تقریبا 40فیصد زیادہ ہیں۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق اکتوبر 2023میں عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.43ڈگری سیلسیئس زیادہ رہاجو پچھلے تمام ریکاڈ توڑ گیا۔ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن (ورلڈ ویتھر ایٹریبیوشن) کی ایک تحقیق کے مطابق گرمی کی لہروں کے امکانات انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 30 گنا بڑھ چکیہیں۔
1993 سے 2022 تک کے اعداد و شمار پر مبنی جرمن واچ کی نئی ”کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025” کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان 2022 میں موسمیاتی خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک قرار پایاہے، رپورٹمیں شدید موسمی واقعات جیسے سیلاب، طوفان، گرمی کی لہریں اور خشک سالی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق2022 میں پاکستان کومارچ سے مئی کے دوران شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں غیر معمولی مون سون بارشوں اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے (جی ایل او ایفز)سے ریکاڈ توڑ مون سوں بارشوں کا سلسلہ شرو ع ہوا جس کے نتیجے میں 1700سے زائد افراد ہلاک ہوئے،33 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے،8 ملین سے زائد افراد بے گھر ہوئے,1.3 ملین مکانات کو نقصان پہنچا,30 بلین ڈالرسے زائد کا اقتصادی نقصان ہوا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہے۔پاکستان میں گرمی کی شدید لہروں میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ طویل اور جان لیوا بھی بنتی جا رہی ہیں۔کراچی، جیکب آباد، سکھر، بے نظیر آباداور دادو جیسے شہروں میں درجہ حرارت انسانی برداشت سے باہر نکل رہا ہے۔
لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤن رپورٹ 2024 کے مطابق پاکستان میں گرمی کی شدت کے باعث ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی، اور زرعی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال اب تک درجہ حرارت معمول سے 5سے 7ڈگری زیادہ رہا مثال کے طور پر سندھ کے شہر شہید بینظیر آباد میں اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جو معمول سے 8.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔
پاکستان میں، گرمی کی لہریں نہ صرف انسانی صحت کو شدید متاثر کررہیہیں بلکہ زراعت، پانی کی دستیابی، اور معیشت پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں جب کہ شہری علاقوں میں ”اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ” کے باعث درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس سے کمزور طبقات، جیسے کہ بزرگ، بچے، مزدور اور خواتین شدید متاثر ہورہے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اوسط درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 1961 سے 2020 تک پاکستان کا اوسط درجہ حرارت 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں ہیٹ ویو اب معمول بن چکی ہیں۔بین الاحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی چھٹی اسسمینٹ رپورٹ میں پاکستان کو ”کلائمیٹ ہاٹ اسپاٹ“ قرار دیا گیا ہے۔
لانسیٹ کاونٹ ڈاؤن کی 2024میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان میں درجہ حرارت اسی شرح سے بڑھتا رہا تو2050تک پاکستان میں لاکھوں لوگ ہیٹ اسٹروک اورآبی قلت سے شدید متاثر ہوں گے۔سائنسدانوں کے مطابق اگر زمین کا اوسط درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ بڑھ گیا تو کئی ماحولیاتی نظام ناقابلِ واپسی نقصان کا شکار ہو جائیں گے۔ واضع رہے کہ پاکستان میں بعض علاقے پہلے ہی 2.5 ڈگری تک جا پہنچے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے، جو دریاؤں کے پانی پر منحصر ہے۔ تاہم درجہ حرارت میں شدت اور تیزی سے ہونے والے اضافے کے باعث، گلیشیئرز کے پگھلنے اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن کی وجہ سے پانی کی دستیابی میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت کی جانب سے کی جانے والی آبی دہشت گردی اورسندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے سے پاکستان کے پانی کے وسائل پر مزید دباؤبڑھ گیا ہے۔پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہو چکا ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اقدامات کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
ہمیں جنگی بنیادوں پر حکمت عملیاں مرتب کرتے ہوئے قومی سطح پر شفاف ماحولیاتی پالیسی، قابلِ تجدید توانائی (سولر و ونڈ)،اربن پلاننگ میں گرین زونز کا اضافہ، عوامی سطح پر درخت لگانا، پانی کا محفوظ استعمال، گرمی کے خلاف مقامی حل اپنانا (جیسے چونا لگانا، چھت پر پودے اگانا) ،گرمی کی لہروں کے لیے ابتدائی انتباہی نظام (ارلی وارننگ سسٹم) کا قیام،عمارتوں کی حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت میں بہتری کے ساتھ بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی مہمات چلانا ہوں گی۔ہمیں جان لینا چاہیے کہ د رجہ حرارت صرف موسمیاتی عدد نہیں، بلکہ یہ آنے والے وقت کی ایک وارننگ ہے۔