مضامین

ہیٹ ویوزکے اصل متاثرین

تحریر و تحقیق: فوزیہ جمیل

موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے معاشرتی اور معاشی زندگی پر پڑنے والے اثرات: سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ غریب ہے

عالمی موسمیاتی تبدیلی، خاص طور پر ہیٹ ویوز کی شدت میں اضافہ، ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف انسانی صحت اور ماحول کے لیے خطرناک ہے، بلکہ اس کی طویل مدتی شدت حیوانات اور نباتات کی نسل کشی کا باعث بن رہی ہے، جس کے نتیجے میں ماحول میں موجود ہر نوع پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں نے 1940 سے ہیٹ ویوز کی شدت کو ماپنا شروع کیا تھا اور انہوں نے اس میں دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔

گرمی کی لہروں کی سائنسی وجوہات

ہیٹ ویوز اس وقت بنتی ہیں جب 10,000 سے 25,000 فٹ (3,000–7,600 میٹر) کی بلندی پر ایک شدید دباؤ کی سطح قائم ہوتی ہے اور یہ کئی دنوں یا ہفتوں تک کسی خاص علاقے پر موجود رہتی ہے۔ سائنسی طور پر سمجھا جائے تو، شمالی نصف کرہ میں موسم گرما کے دوران زمین کا شمالی نصف سورج کی طرف جھک جاتا ہے، جس کی وجہ سے دن کے اوقات بڑھ جاتے ہیں اور وہ حصہ گرم ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر ان طویل دنوں کے بعد۔ موسمیاتی تبدیلیاں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اس شدت کو مزید بڑھا رہی ہیں۔

ہیٹ ویوز اور ان کے اثرات

عالمی موسمیاتی ادارہ (WMO) کے مطابق، 2024 کو گزشتہ دہائی کا سب سے زیادہ گرم اور شدید سال قرار دیا گیا ہے۔ 2023 کے آخر تک 90 فیصد سے زائد سمندروں نے شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کیا تھا، جس کا براہ راست اثر سمندری ماحولیات پر پڑے گا۔ ماہر حیاتیات ایڈیل ڈکسن کے مطابق، دنیا 2 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کی طرف بڑھ رہی ہے، اور اگر گرمی کا یہ اضافہ 1.5 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، تو دنیا کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا ہو گا۔ 15 فیصد اسپیشیز کے نقصان کا خدشہ ہے، اور یہ شرح ہماری موجودہ رفتار پر بڑھ کر 30 فیصد تک جا سکتی ہے۔

سمندری اور زمینی زندگی پر اثرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی انسانوں، جانوروں، نباتات بلکہ پتھروں اور قیمتی معدنیات کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ مرجان کی چٹانیں، جو قدرتی طور پر گرمی کی شدت کو محسوس کرنے کا کام کرتی ہیں، شدید خطرے میں ہیں۔ انسانی جسم 1.5 سینٹی گریڈ کی اضافی گرمی پر اپنے درجہ حرارت کو قابو کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔

کاربن پلان کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، 2030 تک دنیا کے 500 ملین افراد کو ہر ماہ شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور پاکستان میں 2030 تک 190 ملین افراد شدید گرمی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ 2040 تک پاکستان میں غیر معمولی درجہ حرارت کی وجہ سے سالانہ 150,000 اموات ہو سکتی ہیں۔ دنیا کے مختلف حصے اس وقت ہیٹ ویوز کا شکار ہیں، اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 2024 کا موسم گرما تاریخ کا سب سے گرم ہوگا۔ یورپی یونین کے موسمیاتی ادارے کے مطابق، 2023 میں جون سے اگست تک اوسط عالمی درجہ حرارت 16.77 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جو 1990 سے 2020 کی اوسط سے 0.66 سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

بے گھر افراد کے مسائل

حب میں فلاحی ادارے کے احسن احمد کا کہنا ہے کہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے افراد شہروں کے ماحول سے نا آشنا ہوتے ہیں، اور شدید گرمی میں ان کے لیے یہاں گزارہ مشکل ہو جاتا ہے۔ بے گھر افراد کو نہ صرف رہائش کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ شدید گرمی میں ان کی صحت اور روزمرہ کے مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

متاثرہ طبقات اور ان کے مسائل

موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد غریب طبقے ہیں، خصوصاً پاکستان میں جہاں غریب اور متوسط طبقے کے لیے بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔ عالمی بینک کے مطابق، پاکستان میں غربت کی شرح 39.3 فیصد تک پہنچ چکی ہے، اور 95 ملین افراد بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی قدرتی آفات نے بھی غربت میں اضافے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

مزدوروں اور خواتین کی مشکلات

ثمینہ (عارضی شناخت)، جو گلیوں میں گھوم کر کام کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں کام کرنا نہ صرف صحت پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ روزمرہ کی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ لوگوں نے اپنے گھروں کے باہر درخت لگانا کم کر دیا ہے، جس کے باعث سایہ دار جگہیں کم ہو گئی ہیں۔

شازیہ ارشد، سوشل ایکٹیوسٹ اور فیلڈ ورک کرتی ہیں، نے بتایا کہ شدید گرمی میں بس کا انتظار کرنا اور سفر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ سڑکوں پر درختوں کی کمی اور غیر مناسب بس اسٹاپس صحت کے مسائل کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

ہیٹ ویوز سے متاثر افراد کے لیے احتیاطی تدابیر

ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ ہیٹ ویوز کے دوران سرد جگہوں پر جانا اور زیادہ پانی پینا ضروری ہے۔ ڈی ہائیڈریشن کی علامات جیسے پیاس، سر درد، اور ذہنی الجھن کو نظرانداز نہ کریں۔ ابتدائی طبی امداد کے طور پر متاثرہ شخص کو ٹھنڈی جگہ پر لے جا کر اسے آرام دیں۔

ادویات اور ہیٹ ویوز کا تعلق

ڈاکٹر آکاش لاکھانی نے بتایا کہ بعض دوائیں جیسے اینٹی ڈپریسنٹس اور ذیابیطس کی ادویات جسم کی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت میں مداخلت کر سکتی ہیں، جس سے زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔

مزدوروں، کسانوں اور زرعی کاموں پر اثرات

پاکستان میں زرعی شعبہ معیشت کے لیے بہت اہم ہے، لیکن شدید گرمی کی لہریں کسانوں اور مزدوروں کی صحت اور کام کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ کسانوں کو کھیتوں میں کام کرتے ہوئے شدید گرمی کا سامنا ہوتا ہے، جو ان کی صحت اور پیداوار کو متاثر کرتا ہے۔ اس وقت گندم اور آم کی فصلوں کو پانی کی کمی کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان کی حکومت کو بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر ایک حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے تاکہ مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقات کو ان کے سنگین اثرات سے بچایا جا سکے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت کو ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ یہ طبقات ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

Leave a Comment