رپورٹس

کراچی میں دبئی جیسی بارش کا انجام دبئی والا نہیں ہوگا

رپورٹ: وردا ممتاز (کلائیمٹ ایکشن سینٹر)

موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت اور کانفرنسز تو ہوتی ہیں، لیکن عملی اقدامات میں ہم دیگر ترقی پذیر ممالک سے بہت پیچھے ہیں

کلائمیٹ ایکشن سنٹر نے ایک موسمیاتی مباحثے کا انعقاد کیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ کراچی اور دبئی دونوں جگہوں پر موسم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے (کراچی میں معمول کی بارش کا موسم اور دبئی میں کبھی کبھی آنے والے آندھی طوفان) لیکن دبئی میں حالیہ بارش اتنی تیز اور غیر متوقعہ تھی کہ اس کا درست اندازہ لگانا مشکل تھا۔لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں تھا۔

مباحثے میں سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی کہ کراچی ایسے موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بارش کے پانی کو نکالنے کے لیے کراچی کا انفرااسٹرکچر دبئی کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی انتظامات پر بھی کافی بحث ہوئی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کراچی میں آفت سے نمٹنے کے انتظامات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بروقت اقدامات نہیں لیے جاتے۔
اس بات چیت میں حکومت کے اہم نمائندوں، شہر کی ضلعی حکومت، صوبائی آفت سے نمٹنے والی اتھارٹی اور سندھ کے موسمیاتی تبدیلی ڈائریکٹوریٹ کی غیر موجودگی بھی شرکاء کے لیے باعث تشویش تھی۔ حکومت کی اس عدم دلچسپی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آنے والے بارش کے موسم سے نمٹنے کے لیے وہ سنجیدہ نہیں ہے۔

مباحثے میں گرمی کی لہر اور پانی کی کمی پر بھی بات کی گئی۔ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ دونوں چیزیں صورتحال کوزیادہ خراب کر سکتی ہیں، جس کی وجہ سے کراچی میں پچھلے سالوں کی طرح شدید گرمی کی لہر پڑ سکتی ہے۔

بات چیت سے یہ بات واضح ہو ئی کہ کراچی تیز بارشوں کے لیے تیار نہیں ہے اور اسے اپنے انفرااسٹرکچر اور حکومتی انتظامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ موسم کی پیش گوئی ہمیشہ درست نہیں ہوتی لیکن موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک تیار شہر ایسے حالات سے کافی حد تک بچ سکتا ہے۔

اسلام آباد کے چیف موسمیات دان، جو پہلے کراچی میں کام کرتے تھے، نے موسم کی پیش گوئی کے بارے میں لوگوں کے خدشات دور کیے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان موسمیاتی ڈپارٹمنٹ (پی ایم ڈی) کے ملازموں کو بہترین تربیت دی گئی ہے اور وہ جدید آلات استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پیش گوئی میں تھوڑی بہت غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ درست پیش گوئی کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کراچی میں بارش کا موسم معمول کی بات ہے اور یہ ہر سال آتا ہے، جبکہ دبئی میں آنے والی حالیہ غیر متوقعہ بارش ایک خاص قسم کے طوفان کی وجہ سے ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پی ایم ڈی متعلقہ حکام کو باقاعدگی سے موسم کی پیشن گوئی بھیجتا ہے اور پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر کیا کارروائی کرتے ہیں۔ اس بات چیت میں ایک دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی کہ زبیر صدیقی کا خیال ہے کہ اس سال فروری میں ہونے والی بارش کا موسمیاتی تبدیلی سے تعلق نہیں تھا، البتہ مارچ یا اپریل میں ہونے والی غیر متوقع بارش اس بات کی نشاندہی ہو سکتی ہے کہ دنیا میں گلوبل وارمنگ ہو رہی ہے اور موسم کے حالات بدل رہے ہیں۔

ڈاکٹر عامر اورنگزیب، جو جامعہ کراچی میں ماحولیاتی سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، نے موسمیاتی تبدیلی کے واضح اثرات کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے جان و مال کے نقصان سے لے کر فصلوں کی تباہی تک، اس کے تباہ کن نتائج پر روشنی ڈالی، چاہے ہم اس مسئلے کو تسلیم کریں یا نہ کریں، ڈاکٹر اورنگزیب نے زور دے کر کہا کہ، موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی اپنانا ہوگی اور موسمیاتی آفت سے نمٹنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہئیے۔

انہوں نے باتوں اور عمل کے درمیان فرق کو بھی اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت اور کانفرنسز تو ہوتی ہیں، لیکن عملی اقدامات میں ہم دیگر ترقی پذیر ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ ڈاکٹر اورنگزیب نے اس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ حکومتوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن ہر فرد کا اس میں کردار ہے۔ عوام، سول سوسائٹی، نوجوان، کاروباری ادارے اور تعلیمی ادارے سبھی مل کر کمیونٹیز کو منظم کر کے حکومت کی مدد کر سکتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیز اور منصوبوں کو کامیاب کرنے میں تعاون کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں، ڈاکٹر اورنگزیب نے بتایا کہ شہر میں پانی جمع ہونے کی ایک وجہ کچرے کا ناموزوں انتظام ہے۔ کراچی میں روزانہ تقریباً 20 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں سے زیادہ تر سڑکوں پر پھینک دیا جاتا ہے اور نالوں اور نکاسی کے نظام میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے تیز بارش میں شہر میں سیلاب آ جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں میں، حتیٰ کہ تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی، کچرے کو الگ الگ کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے اور وہ کچرے کو صرف پھینک دینے والی چیز سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر اورنگزیب نے ایک مثبت پیش رفت کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی سطح پر آرٹس اور کامرس کی تعلیم میں ماحولیاتی سائنس کا مضمون شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جامعہ کراچی نے اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ امید ہے کہ ان مضامین کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ ماحول کی دیکھ بھال اور اسے بچانے کے بارے میں علم رکھتے ہوں گے اور مستقبل میں اس م حوالے سے مثبت کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے نے اسکولوں اور کالجز میں بھی ایسی ہی تعلیم دینے کی بات کی تاکہ آنے والے رہنما ماحول کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس کی طرف توجہ دیں۔

غیر سرکاری تنظیموں، کاریتاس اور الخدمت فاونڈیشن کے نمائندوں نے حکومت کی جانب سے کم سے کم مدد کے باوجود آفت سے نمٹنے کے لیے اپنے کاموں کو اجاگر کیا۔کاریتاس کے منشا نور نے کمیونٹیز کے ساتھ اپنے مستحکم تعلقات اور بارش کے دوران امدادی کاموں کے لیے تربیت یافتہ رضاکاروں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی پر بھی تنقید کی اور کمیونٹیز کے لیے جدید ترین تربیت اور موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے بارے میں سکولوں اور کالجز کے نصاب میں بنیادی معلومات شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
الخدمت فاونڈیشن کے ہارون شاہد نے آنے والے مون سون کے موسم میں بارش ہونے پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہونے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ ان کے رضاکاروں کا وسیع نیٹ ورک ہے جو تربیت یافتہ ہے اور سیلاب اور بارش کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

کلائمیٹ ایکشن سینٹر کے ڈائریکٹر، یاسر حسین نے اختتامی کلمات میں سندھ حکومت کے کسی بھی با اختیار حکومتی نمائندے کی عدم موجودگی کو آفت سے نمٹنے کے معاملے میں ان کی سنجیدگی کی کمی کا ثبوت قرار دیا۔ انہوں نے سرکاری محکموں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کاغذی کارروائی اور ٹھیکیداروں اور درخواست گزاروں سے پیسے لینے میں تو ماہر ہیں لیکن جب ضرورت ہوتی ہے تو وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف، آج کی بحث میں کمیونٹیز اور ان کے نمائندوں کی فعال شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ٹیکس دینے والے لوگ اضافی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ وہ لوگ جنہیں ان ٹیکسوں سے تنخواہ ملتی ہے وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی موسمیاتی اور ماحولیاتی منصوبہ بندی میں عوام کو دور رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔

Leave a Comment