رپورٹس

سندھ حکومت 16 سال میں نصف سے زائد ماحولیاتی بجٹ ضائع کرچکی

سی اے سی رپوٹ

رپورٹ میں شامل مایوس کن اعشاریے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے صوبے کے ماحولیاتی عزم کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتے ہیں

گزشتہ 16 سالوں میں،(2007 سے 2023-24 تک)، صوبہ سندھ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے 48.8 ارب روپے مختص کیے، لیکن اس کے متعلقہ محکمے اس میں سے صرف 20 ارب روپے خرچ کرنے میں کامیاب ہوئے جو کہ کل بجٹ کا محض 41 فیصدبنتا ہے۔تحقیقاتی و تجزیاتی ادارے دی سٹیزنری کراچی کی طرف سے تیار کیجانے والی موسمیاتی بجٹ رپورٹ کی کلائمیٹ ایکشن سینٹر، کراچی کے تعاون سیجاری کی گئی، نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سندھ کیماحولیاتی اقدامات کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔

رپورٹ میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مختلف محکموں کی کارکردگی کا تجزیہ کیا گیا ہے جو صوبائی حکومت کی ماحولیات کے شعبے میں پیش کی جانے والی ترجیحات پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کلیدی محققین عونب اعظم اور سعدیہ صدیقی نے ایک جامع پریزنٹیشن پیش کی، جس میں پس منظر کی معلومات فراہم کی گئیں کہ انہوں نے ڈیٹا کیسے اکٹھا کیا۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر بجٹ کے تمام اعداد و شمار کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے پر سندھ کے محکمہ خزانہ کی تعریف کی۔

بعد ازاں پینل ڈسکشن میں محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مختلف محکموں کو مختص کی گئی رقم پہلے ہی بہت کم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محدود مختص رقم سے بھی کچھ زیادہ خرچ نہیں کیا گیا ہے جوتشویشناک بات ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگلات بنیادی طور پر اپنے ترقیاتی بجٹ کے اجزاء کو اپنی تکنیکی افرادی قوت کی گہری دلچسپی کی وجہ سے استعمال کرپاتا ہے۔

معروف کنسلٹنٹ شاہد لطفی نے موسمیاتی بجٹ کی رپورٹ کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کسی محکمے کی تکنیکی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے اکیلے مالیاتی کارکردگی کافی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہاکہ فنڈز مختص کرنے کے ذمہ دار اکثر تکنیکی معاملات میں براہ راست ملوث نہیں ہوتے ہیں۔ ملیر ایکسپریس وے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں لطفی نے تجویز پیش کی کہ اس منصوبے سے متعلق سماجی اور ماحولیاتی خدشات کو دور کرنے سے اسے ایک پائیدار ترقیاتی منصوبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

موسمیاتی بجٹ کی رپورٹ کے مطابق، ڈائریکٹوریٹ آف کلائمیٹ چینج، جو کہ حال ہی میں قائم کیا گیا ہے، کے لیے 90 ملین روپے کی بلاک ایلوکیشن میں سے 40 ملین روپے سالانہ مختص کیے گئے جن میں سے محکمہ ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرپایا، جس کے نتیجے میں اُس کی کارکردگی صفررہی۔ رپورٹ میں سندھ حکومت کیمختص بجٹ کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے عزم کی کمی اور موسمیاتی اور ماحولیات کے شعبوں کی کارکردگی کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔

سعدیہ صدیقی نے رپورٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”موسمیاتی تبدیلی کے ڈائریکٹوریٹ جیسے نئے محکموں کے قیام کو موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں عوامی خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک دکھاوے کی سرگرمی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کا ثبوت فنڈز کے استعمال میں اس کی ناکامی ہے۔ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ(سیپا) نے 16 سال کی مدت میں 3.419 بلین روپے مختص کرانے کے باوجود کوئی بہتر کارکردگی نہیں دکھائی، اور مختص کردہ رقم میں سے صرف 336.56 ملین روپے خرچ کیے، جو مختص کردہ فنڈز کا محض 10 فیصد ہے۔ سندھ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی رقوم کے سالانہ اجراء میں اُتار چرھاؤ کے باوجود مختص کیے گئے 10.069 ارب روپوں میں سے 4.421 ارب روپے خرچ کرنے میں کامیاب رہی اور یوں اس کی کارکردگی کی شرح صرف 43.91 فیصد ہے۔

قدرے مثبت تاثر کے ساتھ سندھ کے محکمہ جنگلات نے مختص کیے گئے 12.789 ارب روپوں میں سے 9.894 ارب روپے (77%) خرچ کرتے ہوئے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ نے 1.816 ارب روپوں میں سے 766.126 ملین روپے استعمال کیے جس سے کارکردگی کی شرح 42 فیصد بنتی ہے۔تاہم، سندھ کے متبادل توانائی کے محکمے نے 2013-14 میں 173ملین روپے مختص کیے جانے کے باوجودکچھ بھی نہیں خرچ کرتے ہوئے صفر کارکردگی دکھائی۔ سندھ پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (PDMA)، جسے 20.5 ارب روپے کا سب سے بڑا حصہ مختص کیا گیا تھا اُس نے صرف 4.78189 ارب روپے خرچ کیے ہیں جو مختص کردہ فنڈز کا محض 23.33 فیصد ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمہ ماحولیات سندھ کے پاس ماحولیاتی تحفظ یا موسمیاتی تبدیلی کے موافقت کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی نہیں ہے۔ ”جھیلوں کی بحالی کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی اور تدارک کے اقدامات” اور ”سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر مطالعہ” جیسی امید افزا اسکیمیں شروع توکی گئیں لیکن مکمل نہیں ہوئیں۔مزید برآں، آب و ہوا سے متعلقہ محکموں نے گزشتہ برسوں کے دوران فنڈنگ میں اتار چڑھاؤ کا سامناکیا ہے، جس کی وجہ سے اخراجات کے متضاد نمونے سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر، سندھ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 2012-13میں سب سے زیادہ رقم مختص کی گئی لیکن مجموعی طور پر کم اخراجات کے ساتھ بجٹ کی مجموعی رقم کم رہی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ موسمیاتی بجٹ میں اضافے کی بجائے سندھ حکومت نے ماحولیاتی تبدیلی کے اقدامات کے حوالے سے انفراسٹرکچر کے دیگر منصوبوں کو ترجیح دی ہے۔ مثال کے طور پر ملیر ایکسپریس وے منصوبے کی لاگت کل موسمیاتی بجٹ سے زیادہ ہے۔صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کو افرادی قوت اور منصوبہ بندی کی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے مختص فنڈز کو استعمال کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ سندھ حکومت نے اہم ماحولیاتی مسائل جیسے آبی ذخائر کی بحالی، ویٹ لینڈ کا تحفظ، اور شدید موسمی واقعات کے اثرات کو حل کرنے کے مواقع گنوا دیے۔ یہاں تک کہ ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بظاہر ایک اہم منصوبہ اپنے بجٹ کے دوسرے سال میں بھی التوا کا شکار ہے۔نئے قائم کردہ ڈائریکٹوریٹ آف کلائمیٹ چینج (DoCC) میں واضح اہداف اور فعالیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے اس کی تاثیر غیر یقینی ہے۔ کچھ اسکیموں میں غبن کے واقعات کا بھی پتہ چلا ہے، جو موسمیاتی بہتری سے متعلق اقدامات پر کم اخراجات کا ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا ہے۔

مختصراً، موسمیاتی بجٹ کی رپورٹ سندھ حکومت کی جانب سے مختص بجٹ کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے عزم کی کمی اور موسمیاتی اور ماحولیات کے شعبوں کی کارکردگی کو نظر انداز کرنے کی عکاسی کرتی ہے۔دریں اثناء عونب اعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے ڈائریکٹوریٹ کی تکنیکی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ڈائریکٹوریٹ جیسے نئے محکموں کے قیام کو موسمیاتی فنانسنگ اور اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں عوامی خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک فریب کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جیساکہ فنڈز کے استعمال میں اس کی فوری ناکامی سے ثابت ہورہا ہے۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ رپورٹ کے مایوس کن اعشاریے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے صوبے کے طویل مدتی عزم کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتے ہیں۔ اس لیے آب و ہوا میں بہتری کی کارروائی کے لیے مزید اسٹریٹجک نقطہ نظر کی اشد ضرورت ہے، جس میں بہتر بجٹ، صلاحیتوں کے نکھار اور آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری کے اقدامات شامل ہیں۔ تقریب کی نظامت کلائمیٹ ایکشن سینٹر کی وردہ ممتاز نے کی۔سٹیزنری کراچی کی رپورٹ سندھ حکومت کے لیے موسمیاتی کارروائی کواولین ترجیحات میں شامل کرنے، مختص فنڈز کے موثر استعمال کو یقینی بنانے، اور موسمیاتی تبدیلی سے درپیش اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حقیقی عزم کا مظاہرہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔

کلائمیٹ ایکشن سینٹر کراچی شہر کے لیے ایک پائیدار مستقبل کی تحریک کے لیے وقف ہے۔ اس کے مشن میں کراچی میں صاف ہوا، قابل تجدید توانائی اور برقی نقل و حرکت کو فروغ دینا شامل ہے۔ مرکز کا مقصد مختلف اقدامات، تعلیم اور کمیونٹی کی شمولیت کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ یہ شہر میں ماحول دوست طرز عمل اور پالیسیوں کی وکالت کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

دی سٹیزنری ایک آزاد آن لائن میڈیا پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد پالیسیوں اور اہم مسائل کے پس پردہ کہانیوں سے پردہ اٹھانا ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں مالی رکاوٹوں، سنسرشپ سے لڑنے، اور پاپولسٹ نیوز آئٹمز سے نمٹنے کے دورمیں، The Citizenry صحافیوں اور محققین کے ایک گروپ پر مشتمل ہے جس کا مقصد اکثر نظر انداز کیے جانے والے اور نازک مسائل کو تلاش کرنا ہے جو ہم سب کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کے فوکس ایریاز میں آب و ہوا کی پالیسیاں، صنفی معاملات، ہائپر-لوکل سوک ایشوز، شہری منصوبہ بندی اور انتظامی پالیسیاں شامل ہیں۔

Leave a Comment