مضامین

گلیات سرکل بکوٹ کے سرسبز پہاڑ آگ کی لپٹ میں۔۔۔ذمہ دار کون

تحریر : نویداکرم عباسی (ایبٹ آباد)

 

آگ سے ہر سال کروڑوں روپے مالیت کے درخت اور پودے جل جاتے ہیں جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہونچتا ہے۔

ایوبیہ نیشنل پارک سے ملحقہ بکوٹ باگن فارسٹ جلنے سے یہاں کی وائلڈ لائف خوبصورت پرندے اور حشرات الارض بری طرح متاثر ہوئیہیں۔سرکاری وغیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں صرف فوٹو سیشنز تک محدود رہیہیں۔

اس آگ کے ننتیجے میں چند دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں سرسبز درختوں،کئی گھروں اور مسجد سمیت مقامی افراد کی سردیوں کے لیے جمع شدہ خشک لکڑیاں اور مال مویشی کے لیے جمع گھاس جل کر خاکستر ہو گئی۔تھانہ بکوٹ کی حدود سنگریڑی بیروٹ خورد مولیا بکوٹ ودیگر علاقوں میں خوفناک آتشزدگینے تھانہ لورہ اور تھانہ چھانگلہ گلی کی حدود میں جگہ جگہ لگنے والی آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا ئی۔

تھانہ بگنوتر کی حدود نملی میرا ویلج کونسل 1 میں نامعلوم افراد کی طرف سے پہاڑوں پر لگائی جانے والی آگ نے محمد طارق نامی شخص کے مکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیاجس کے نتیجے میں پورا مکان اور اس میں رکھا ہوا گھریلو سامان جل کر خاکستر ہو گیا جس سے غریب شخص کا لاکھوں روپے کا نقصان ہو گیا۔اس گھر کے مکین سردی کے موسم میں پہاڑوں سے شہر میں عارضی منتقل ہوئے تھے مکان غیر آباد ہونے کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہواجب کہ یو۔سی نتھیا گلی کے گاؤں کنڈلا میں بھی ایک غریب شخص کی سردی کے موسم کے لیے اکٹھی کی گئی لکڑیاں بھی اسی طرح آگ کی زد میں آ کر جل گئی،اسی علاقہ میں پھلیتی آگ نے مسجد اور کئی گھروں کو اپنی لپیٹ میں لیا۔

اس آگ کے نتیجے میں خانسپور ایوبیہ میں سابقہ چیف سیکریٹری اختر منیر کا گھر بھی جل کر خاکستر ہو گیا۔ آگ نے جہاں کنڈلہ میں جامع مسجد شہید اور مختلف مقامات میں متعدد گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا وہیں قیمتی درختوں کے ساتھ ایوبیہ نیشنل پارک بکوٹ باگن بگنوتر دروازہ کے جنگلات بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں نایاب جنگلی حیات پرندے حشرات الارض اس آگ کی لپیٹ میں آگئے، اس موقع پر مقامی لوگوں کے ساتھ ریسکیو 1122 مقامی پولیس مددگار ہوتی ہے مگر وسائل کی کمی اور پہاڑوں پر پھیلتی آگ نے بگنوتر سے باڑیاں اور نتھیاگلی سے بکوٹ تک سیاہ دھوئیں کے بادل اور آلودہ ھواؤں کے ڈیرے نظر آئے۔

گلیات میں اکثرشرپسند عناصر کی طرف سے پہاڑوں پر آگ لگانے کا سلسلہ جاری رہتاہے اس میں باڑہ گلی کے نزدیک آگ پر ریسکیو ٹیمیں اپنی گاڑیوں سمیت پہنچ کر سڑک کے نزدیک تو کاروائی کرتے ہیں مگر دور دراز ممکن نہیں جس سے ہر سال کروڑوں روپے مالیت کے درخت اور پودے جل جاتے ہیں اور ہر سال قومی خزانے کو کروڑوں روپے کی کڑوی پھکی دی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کے مسکن بھی جل جاتے ہیں اور ساتھ ہی زیادہ ترجنگلی حیات اور قیمتی جڑی بوٹیاں بھی جل جاتی ہیں۔

جنگلی حیات کی زندگیوں، درختوں اور پودوں کی تباہی کے مجموعی طور پر ہم سب ذمہ دار ہیں۔کسی بھی جگہ پر لگنے والی آگ لگنے کی کوئی تحقیقات نہیں ہوتی اور نہ ہی آگ لگنے کی وجوہات یا آگ لگانے والے کو پکڑنے کے لیے ہم عملی طور سامنے آتے۔ پہاڑی علاقوں میں مال مویشیوں کی کمی کے باعث پہاڑوں سے گھاس بھی نہیں کاٹا جاتا،اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئیہے کہ گاؤں کی زمینوں سے بھی کوئی گھاس کاٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔جس کی وجہ سے پہاڑوں یا آبادیوں میں لگنے والی آگ بہت تیزی سے پھیل جاتی ہے جس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔پہاڑی علاقوں میں تنگ سڑکیں اور بعض علاقوں میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو 1122 ٹیمیں بھی نہیں پہنچ پاتی۔

خشک سالی سے اس موسم میں پانی کی بھی شدید قلت ہوتی ہے اگر کہیں آگ لگ جاتی ہے تو اسے بجھانے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ ضلعی انتظامیہ اور فارسٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی اس سے قبل پہاڑوں جنگلوں یا آبادیوں میں آگ لگانے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔جب تک پہاڑوں پر آگ لگانے والے ظالموں کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی ہر سال اس سیزن میں اسی طرح آگ لگتی رہے گی اور نہ جانے کتنے غریبوں کا ناحق نقصان ہوتا رہے گا۔ ضلعی انتظامیہ اور مختلف تھانہ جات کے ایس۔

ایچ۔او صاحبان جن کی حدود میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں کی انتظامیہ کو اگ لگنے والی جگہ پر فورا پہنچے اور آگ لگانے والے عناصر کو تلاش کرکے قرار واقعی سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں مقامی کمیونٹی بھی اہمکردار ادا کر سکتی ہے اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرکے آگ لگانے والے شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہونچا سکتی ہے۔

Leave a Comment