تحریر : فرحین (اسلام آباد)
وزیراعطم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ “بریتھ پاکستان” آنے والی نسلوں کے لیے سرسبز اور صاف ستھرا پاکستان بنانے کا موثر پیغام ہونا چاہیے۔
ملک کے نامور میڈیا گروپ ‘ڈان’ کی جانب سے منعقد بین الاقوامی کانفرنس ‘بریتھ پاکستان’ کے دوسرے اور آخری روز شرکا سے ویڈیو خطاب میں کہا: پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیےمالی امداد و معاونت کی ضرورت ہے تاکہ پائیدار ترقی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی معاونت کے بغیر ماحولیاتی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑے پیمانے پر سیلاب، ہیٹ ویز اور قحط سالی جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔
کانفرنس کا مقصد میں علاقائی تعاون کا فروغ اور 2047 تک پاکستان کوماحولیاتی تبدیلیوں سے ںمٹنےوالا مضبوط ملک بنانا تھا، جنوبی ایشیا وہ خطہ ہے جہاں ممالک بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، پانی کی قلت اور قدرتی آفات جیسے مشترکہ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
سابق وزیر ماحولیات سنیٹرشیری رحمان نے “بریتھ پاکستان” سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نے سوچنا ہو گا کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی سے کیسے نمٹ رہے ہیں۔ پاکستان کو 2030 تک ماحولتاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اربوں ڈالرز کی ضرورت ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ “کوپ ” میں بتا دیا گیا تھا کہ فوسل فیول سمیت دیگرگیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے اور اسی وجہ سے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوگا۔ پیرس کے اہداف اب موثر نہیں دہے۔
شیری رحمان نے پلاسٹک کی آلودگی کی بار کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک کی آلودگی کے باعث پمارے ساحل تباہ ہورہے ہیں اوراس کی وجہ انسانی استعمال ہے، جس کے ذمے دار ہم خود ہیں، اس کی ذمےداری کسی قومی ڈونر یا بین الاقوامی ادارے پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
انہوں نے ماحولیات تبدیلی جیسے اہم موضوع پر ڈان گروپ کی جانب سے کانفرنس کے انعقاد کو سراہا۔
اس موقع پر ملکی اور غیر ملکی ماہرین ،رہنماؤں اور حکومتی شخصیات نے مختلف سیشنزاور پینلز میں خطابات کیے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عملی حل تلاش کرنے کی جانب زور دیا گیا۔
شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بدلتے موسمی حالات کے باعث درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ موافقتی منصوبوں کو عملی شکل دی جا سکے۔