فروزاں رپورٹ
حکومتی سطح پر جمع کیا جانے والا ڈیٹا اس انداز میں ترتیب ہی نہیں دیا گیا کہ وہ موسمیاتی بحران کی انسانی لاگت کو واضح کر سکے۔
پاکستان میں موسمیاتی بحران کی سنگینی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، اور اس کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقات یعنی بزرگوں اور بچوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں جاری کردہ ایک جامع رپورٹ کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی آفات سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، حالانکہ عالمی سطح پر یہ ملک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں نہایت معمولی حصہ رکھتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2022 میں غیرمعمولی گرمی کی لہروں اور شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے بدترین سیلاب سے کروڑوں افراد متاثر ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، اور ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار میں 1,739 اموات درج کی گئیں، لیکن حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ اسی نوعیت کی شدید موسمی آفات 2024 میں بھی دیکھی گئیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک بار کا واقعہ نہیں بلکہ تسلسل اختیار کر چکا ہے۔
یہ رپورٹ ایک غیر سرکاری ادارے اور ایک صحت کے نیٹ ورک کے باہمی اشتراک سے تیار کی گئی، جس میں تین مختلف ہسپتالوں میں اموات کے ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا، جبکہ متاثرہ افراد، صحت کے عملے، مقامی تنظیموں اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ درجنوں انٹرویوز بھی کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں صحت کا نظام ان موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں، جس کی وجہ سے خاص طور پر بزرگوں اور بچوں کی جانیں بچانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سرکاری ادارے ان اموات کا مکمل ریکارڈ نہیں رکھتے، جس سے نہ صرف اصل ہلاکتوں کی تعداد کم دکھائی دیتی ہے، بلکہ اس سے مؤثر حکمتِ عملی بنانے میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ آفات سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات تک رسائی انتہائی محدود ہے، جو مزید اموات کا باعث بنتی ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بزرگ اور بچے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں، لیکن ان کے بارے میں نہ تو کوئی مخصوص ڈیٹا موجود ہے اور نہ ہی کوئی خاص پالیسی۔
سیلاب سے پیدا ہونے والی آلودہ پانی کی بیماریاں اور مچھروں کے ذریعے پھیلنے والے امراض، جیسے کہ بخار اور سانس کی بیماریاں، بزرگوں اور کم عمر بچوں کے لیے موت کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری طرف شدید گرمی کی لہریں، خاص طور پر وہ افراد جو پہلے سے بیماری کا شکار ہیں، ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔ نومولود بچے بھی اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہر، خصوصاً کراچی، اس وقت موسمیاتی بحران کے شدید اثرات کی لپیٹ میں ہیں۔ بجلی کی طویل بندش نے اپارٹمنٹ عمارتوں کو تندور بنا دیا ہے، جہاں درجہ حرارت ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ اگرچہ حکومت اور کچھ فلاحی اداروں نے کولنگ مراکز قائم کیے، مگر ان کی تعداد بہت کم اور جگہیں بہت دور تھیں۔ زیادہ تر شہری ان مراکز کے بارے میں جانتے ہی نہیں تھے، جو عوامی آگاہی کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بنیادی صحت کے مراکز میں گرمی سے متاثرہ افراد کے لیے علاج کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نتیجتاً مریضوں کو بڑے ہسپتالوں میں بھیجا جاتا ہے، جہاں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ مریض موجود ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف نظام صحت کی کمزوری کو اجاگر کرتی ہے بلکہ حکومتی منصوبہ بندی کی ناکامی کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔
رپورٹ میں خاص طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ بزرگ افراد، جو سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ان سے متعلق کوئی جامع ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ حکومتی سطح پر جمع کیا جانے والا ڈیٹا اس طرح سے ترتیب ہی نہیں دیا گیا کہ وہ موسمیاتی آفات کی انسانی لاگت کو ظاہر کر سکے۔ یہ ایک بہت بڑا خلا ہے جو نہ صرف قومی سطح پر پالیسی سازی کو متاثر کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کی امداد کو بھی غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق، ہر ریاست پر لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے زندگی اور صحت کے حقوق کا تحفظ کرے۔ پاکستان نے کچھ اصلاحات ضرور کی ہیں، لیکن وہ ابھی بھی ناکافی ہیں۔ خاص طور پر دور دراز علاقوں اور پسماندہ طبقات کے لیے بنیادی حقوق کا تحفظ ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان اس بحران سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔ دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے تاریخی طور پر سب سے زیادہ آلودگی پھیلائی ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ اس کے اثرات کی ذمہ داری قبول کریں۔ انہیں چاہیے کہ پاکستان جیسے ممالک کی مدد کریں تاکہ وہ اس موسمیاتی بحران سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں۔
اس کے ساتھ ہی، حکومتِ پاکستان سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں اخراجات بڑھائے، بہتر اعداد و شمار جمع کرے، اور خصوصی طور پر بزرگوں اور بچوں کو حکمتِ عملی میں شامل کرے تاکہ مستقبل میں انسانی جانوں کا تحفظ ممکن ہو سکے۔
یہ رپورٹ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی حقوق کا بحران بھی ہے۔ اگر ہم نے آج مؤثر اقدامات نہ کیے تو آنے والے کل میں یہ بحران ہماری نسلوں کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی تباہی کی شکل اختیار کر لے گا۔